پھر سے اج یادوں نے زھن کو جھنجھوڑا ھے
پھر سے انکھ پرنم ہے
پھر مرے تصور میں عکس ھے ترا بابا
پھر مری نگاہوں میں شخصیت تمھاری ھے
زیر لب تبسسم وہ خامشی نگاہوں کی
میری ھر خطا پر وہ مسکراھٹیں تیری
چومنا وہ پیشانی کامیابیوں پہ مری
ھر قدم پہ ساتھ ترا یاد ا گیا بابا
اب کہاں سے لاوں پھر دلنشیں سھانے دن
مسکراہٹیں گم ہیں جب سے تم گے بابا
کس سے کیا کہوں اب میں مضطرب ھے دل بابا
کس طرح تری چاھت پاوں کچھ بتا بابا
اسماں کی وسعت میں گم ہوی تری خوشبو
دسترس سے دور ہوی تیری شخصیت بابا
ھرگھڑی رلاتی ہے تیری خامشی بابا
اب نہ یاار ا بابا
اب نہ یااد ا بابا