لفظ واضح نہیں ابہام سے ڈر لگتا ہے
سچ تو یہ ہے مجھے انجام سے ڈر لگتا ہے
ہو کے مد ہوش بھٹک جانے کا خدشہ ہے بہت
میکدے سے ہی نہیں جام سے ڈر لگتا ہے
منتظر ہوں بڑی شدّت سے پیامی کا ترے
دل ہی دل میں ترے پیغام سے ڈر لگتا ہے
کتناسناٹا ہے ویران گلی کوچوں میں
شہر اجڑا تو در و بام سے ڈر لگتا ہے
زندہ رہنے کے جو اسباب میّسر یاں کرے
اس کے احسان سے؛ انعام سے ڈر لگتا ہے
وارثیؔ کس پہ بھروسہ کرے دشواری میں
جس کو گھر میں بھی سرِ شام سے ڈر لگتا ہے