ہم نشیں،ہم سفر کہ یار نہیں
کوئی لیکن الم گسار نہیں
چشم گستاخ کو منالیں گے
ہاں مگر دل پر اختیار نہیں
اس لیے ان سے میں نہیں ملتا
دل ناداں پر اعتبار نہیں
آپ جلوہ تو اپنا دکھلائیں
کس کو شوق صلیب و دار نہیں
تشنہ لب کوئی آکے پھرجائے
ایسا ساقی ترا دوار نہیں
تیرے خوابوں کی یہ حسیں دنیا
کیا مرے خوں سے لالہ زار نہیں
تیری الفت کو چھوڑ کر میرا
کوئی سامان افتخار نہیں
سارے کس بل فراق نے لوٹے
دل میں اب تاب انتظار نہیں
تیری چشم وفا کے بن کوئی
چمن شوق نخل بار نہیں
کیا وفاؤں کی راہ میں میرے
جامہ و جیب تار تار نہیں
شب ہجراں کی خیر ہو فاتحؔ
آنکھیں نم کہ یہ دل فگار نہیں