سخن میں جو روانی ہو گئی ہے
خدا کی مہربانی ہو گئی ہے
جو تیرے واسطے اتری تھی دل پر
وہی میری کہانی ہوگئی ہے
نیا الزام رکھ دو آدمی پر
کہ جنت اب پرانی ہوگئی ہے
ترا موسم جو آیا ہے نظر میں
غزل کتنی سہانی ہوگئی ہے
تری آنکھوں میں ڈھلتی مسکراہٹ
ہماری زندگانی ہو گئی ہے
کہاں کا دل کہاں کا ہے فسانہ
محبت آنی جانی ہوگئی ہے
نہیں لکھے گی نیلمؔ نام ان کا
وہ اب قدرے سیانی ہوگئی ہے