آگہی آگ ہے اور چھالا ہے صبر
ہجر مقتل ہے اور اک مسافت ہے رات
دل شکستہ ہے جس میں ہواؤں کے قہر
برچھیوں کی زباں ظلم نیزوں کی بات
دل شکستہ ہے مقتل میں ہے سر بکف
زہر تھامے کوئی کوئی چھالا لیے
سر کٹے گا کیا کیا ہو گی اب سحر
صبر کے چھالے سے ٹپکے گا کتنا لہو
دل بہ پیکار شب جاں قمر بستہ صف