زندگی سے آشنا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
یعنی مثلِ آئنہ تو بھی نہیں میں بھی نہیں
کس لئے پھر ہجر کی دیوار اونچی ہو گئی
ایک دوجے سے خفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
ایک تھی منزل تو رستے ہو گئے کیسے الگ
چاہتا تھا فاصلہ تو بھی نہیں میں بھی نہیں
ہجر کے لمبے سفر پر آج تک ہم چل رہے
ہارا اپنا حوصلہ تو بھی نہیں میں بھی نہیں
ہم جدا ہونے سے پہلے کھلکھلائے تھے بہت
بعد اس کے پھر ہنسا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
مسئلہ تھا بس انا کا عشق تھا اپنی جگہ
آج تک لیکن جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
مر ہی جائیں گے جدا ہوکر کہا کرتے تھے یہ
اور جدا ہوکر مرا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دوں بھلا الزام کس کو فاصلہ جو بڑھ گیا
مانتا اپنی خطا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
ایک دوجے سے جفا کرتے رہے دونوں سدا
سعؔد حقدارِ وفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں