جو حال پوچھتے تھے خدامت کے نام پر
ڈھاتے ہیں اب ستم وہ حمایت کے نام پر
ہوتا نہیں جہاں جو سیاست کے نام پر
حاکم وہ کر رہا ہے حکومت کے نام پر
واعظ لڑا رہا ہے شہادت کے نام پر
وہ بھی بکا ہوا ہے صدارت کے نام پر
مارا گیا غریب ریاضت کے نام پر
کیا کیا نہیں ہوا ہے ثقافت کے نام پر
دھبہ لگا دیا ہے روایت کے نام پر
دھوکہ دیا گیا ہے عدالت کے نام پر
حد درجہ مفلسی نے کمر توڑ دی ہے اب
مرنے لگے غریب ہیں غربت نام پر
ہم ایسے کند ذہن جو ، ان سب کے ساتھ ہیں
میلا لگا رہے ہیں جو اجرت کے نام پر
ہم وہ جنہوں نے زیست کا پایا نہیں مزہ
ہم کو دیئے ہیں زہر یہ امرت کے نام پر
ہم وہ جنہوں نے عشق پہ سب کچھ لٹا دیا
چھینا گیا سکون سکونت کے نام پر
ناکامیاں ہی بن کے مقدر ہیں رہ گئیں
مرنے لگے جوان سہولت کے نام پر
لڑکی کمال ظرف تھی غیرت میں چل بسی
عزّت لٹا رہے ہیں یہ غیرت کے نام پر
ہم وہ خراب حال جنہوں نے ہنسی ہنسی
قربان کی ہیں عزتیں شہرت کے نام پر
ایسوں کی پاک بازی سے ہم کو بھلا کیا کام
جو جسم بیچتے ہوں محبت کے نام پر
گلشن جلا پرند ہوئے گھر سے بے دخل
یعنی گئے ہیں بال و پر دہشت کے نام پر
ہو کر غلام رہ گئے ہم ان کے در کے پھر
اک بار بھیک لی تھی محبت کے نام پر
کچھ دوست کر رہے تھے گلہ آسمان سے
چھینا ہے چین ہم سے کیوں قسمت کے نام پر
حیرت کی بات یہ تھی سخی دیکھتا رہا
مٹتا ہوا جہاں کو قیامت کے نام پر