سفر کے دور میں رختِ سفر نہیں آیا
پتہ نہیں کیوں ہمیں اب بھی پر نہیں آیا
وہ کیا پڑھے گا کتابِ وفا کی تحریر یں
اسے تو عیب بھی اپنا نظر نہیں آ یا
تمہارے شانے پہ سر رکھ کے مجھ کو سوناہے
اسی خیا ل سے تکئے پہ سر نہیں آ یا
جوانی کا وہ حسیں پل بہا ر کا موسم
بہت بلا یا میں اس کو مگر نہیں آ یا
مرے نصیب میں کیسا سفر ہے کیا جا نے
تمام عمر چلا اور گھر نہیں آ یا
میں انتظار میں تھا بام پر اشارے کا
ادھر سے تیرا اشارہ ادھر نہیں آ یا
قلم کی نوک سے جملہ تراشتا ہوں میں
خدا گواہ چھڑی کا ہنر نہیں آ یا