جب بہ چلا تو قطرہ سمندر کا ہوگیا
آنکھوں میں ٹھہرا اشک تو پتھر کا ہوگیا
پوجا اسے تو اسکو لگا دیوتا ہوں میں
پھر رنگ دوسرا ہی ستم گر کا ہوگیا
اس نے ہر ایک بات کہی یوں تراش کر
جیسے اثر زبان میں خنجر کا ہو گیا
چادر انا کی ہم نے تو اوڑھی تھی دو گھڑی
پھر کیسے فاصلہ یہ مقدر کا ہو گیا
بچے کو ماں کھلونوں میں ہی ڈھونڈھتی رہی
اور بچہ قد میں ماں کے برابر کا ہو گیا
دولت تھی بے شمار مگر وقتِ آخری
دولت سے ہاتھ خالی سکندر کا ہو گیا
کھا کھاکے چوٹ ہم تو نکھرتے چلے گئے
عطیہ ہمارا دل تو سخنور کا ہو گیا