مسلط سب درختوں پر غم دوراں کے سائے ہیں
یہ کسی ظالم نے اہل گلستاں پر ظلم ڈھائے ہیں
وفا کی آس تھی جن سے بوقت گردش دوراں
انھیں لوگوں نے مجھ پر طنز کے پتھر چلائےہیں
کبھی سر رکھ کے ماں کی گود میں جب لیٹ جاتا ہوں
مرے بچپن کے دن لگتا ہے جیسے لوٹ آئے ہیں
بڑی محنت سے جن کو میں نے ایک اک کر کے جوڑا تھا
حسد کی آندھیوں نے وہ سبھی تنکے اڑائے ہیں
بفضل رب وہ زندہ ہیں انھیں مردہ نہ تم سمجھو
جنھوں نے راہِ حق میں اپنےسر تک بھی کٹائے ہیں
ہمیں ہو جام حاصل آپ کی چشم عنایت کا
درِ اقدس پہ صاحب آپ کے دیوانے آئے ہیں
رضا کی ہے دعا یا رب کرم کی بارشیں کر دے
کہ ہم اس وقت ہر جانب مصیبت کے ستائے ہیں