کون کہتا ہے تمہیں خوف زمانہ رکھو
خوف رکھنا ہے ضروری تو خدا کا رکھو
حق کی آواز دبانے سے کہاں دبتی ہے
سر حسینی ہے اگر تو اسے اونچا رکھو
آئینہ دیکھنا پڑجائے تو حیران نہ ہو
اپنے کردار کو اسلاف کے جیسا رکھو
کچھ نہیں پاؤگے باتوں کا سپاہی بن کر
زندگی جینے کا تم خود میں سلیقہ رکھو
ہر کوئی اپنی مثالوں میں تمہیں یاد کرے
اپنا کردار زمانے میں یوں اعلیٰ رکھو
اور بھی لوگ ہیں محفل میں چلو،آؤ ملو!
اس قدر بھیڑ ہے خود کو نہ اکیلا رکھو
چار دن کے لئے آئے ہو چلے جاؤ گے
"اپنے دل میں نہ کبھی خواہش دنیا رکھو"
نسل در نسل زباں رہتی ہے قائم اس سے
اپنے گھر میں کوئی اردو کا رسالہ رکھو
انتظار اور ابھی پانچ برس تک کرلو
اچھے دن آئیں گے رہبر پہ بھروسہ رکھو