مسائل روبرو سنگین کھڑے ہیں
مگر ہم زندگانی سے لڑے ہیں
بہار آئے نہ آئے پر ستم ہے
کہ پتے بھی درختوں کے جھڑے ہیں
لہو برسے گا شاید آسماں سے
شجر بھی چھتریاں کھولے کھڑے ہیں
رہے احرار کی خاطر جو پیچھے
وہی عوام کے پیچھے پڑے ہیں !
پھٹی ٹوپی پہنتا تھا جو کل تک
اسی کے تاج میں ہیرے جڑے ہیں
کوئی ایک جھوٹ ہو تو ہم بتائیں !
ہزاروں جھوٹ کے قصے گھڑے ہیں
انہیں سمجھو نہ تم آسان ارشاد !
مراحل زیست کے بے حد کڑے ہیں