انسانیت کا پرتو کچھ تو ہو آدمی میں
کچھ تو بنائے اپنا معیار زندگی میں
خورشید و ماہ و انجم اپنی جگہ مسلم
اک منفرد کشش ہے جگنو کی روشنی میں
کوئی سراغ اپنا پایا نہیں ابھی تک
خود کو تلاش کرنے آیا تری گلی میں
محلوں کےخواب اس کو تم کیوں دکھا رہےہو
جومطمئن ہےاپنی چھوٹی سی جھونپڑی میں
گلشن میں یہ ہوائیں کیا کہہ رہی ہیں آخر
کس درجہ بے کلی ہے ہر گل میں ہر کلی میں
کوئی نہ کوئی خامی ہر شخص میں ملے گی
رندوں سی پارسائی ڈھونڈو نہ ہر کسی میں
مختار نذر آتش گھر تو ہوا ہے لیکن
کتنے ہی بچ گئے ہیں لٹنے سے تیرگی میں