میں جسے اپنی نظر میں تول کر بیٹھا ہوا تھا
وہ پرندہ تو پروں کو کھول کر بیٹھا ہواتھا
کر دیا انمول مجھ کو پھر کسی کی خوش نظر نے
میں وگرنہ زندگی بے مول کر بیٹھا ہواتھا
سانپ پھر منڈلا رہے تھے دوستوں کے روپ میں اور
میں بھی اپنی آستیں کو کھول کر بیٹھا ہواتھا
من وہ میٹھی گفتگو سے موہ لیتے حیف قسمت
دل لہو میں تلخیوں کو گھول کر بیٹھا ہوا تھا
زندگی کیوں کھینچ لائی پھر مجھے اُس داستاں میں
میں تو کردارِ محبت رول کر بیٹھا ہوا تھا
ہاتھ میں نشتر لئے وہ منتظر تھا اور عاطف
میں اُسی کے سامنے دل کھول کر بیٹھا ہوا تھا