گُمرَہی بھی نہیں رہی اب تو
نِبھ رہی ہے رہی سہی اب تو
خامشی بات، بات خاموشی
ایک سی،ان کہی، کہی، اب تو
آگ پہلے پہل تھی میرے لیے
برف جیسی ہے آگہی اب تو
رات سے دن کشید ہوتا تھا
ہے مگر رات، رات ہی اب تو
بھوک کیا مرکزِ جمود ہوئی
چار جانب ہے بے تہی اب تو
نفی اثبات کی ڈیوڑھی میں
ناچتی ہے فقط "نہی" اب تو
لفظ پہچان کھو چکے ہیں شہیر
شعر کہتے ہیں ہم یونہی اب تو