سب انگلیوں کے نشانات یہ بتاتے ہیں
سوائے تیرے کسی نے نہیں چھوا دل کو
ہے ایک دل کے لیے جو جگہ وہ سینہ ہے
گرے پڑے کو اٹھا دل سے اب لگا دل کو
کہ جیسے بکھری پڑی ہوں گلاب کی پتیاں
ہے یوں بکھیر دیا تو نے بر جگہ دل کو
یہ کس کے قدموں کی دھک دھک ہے کون آیا ہے
بڑھی ہے کیوں مری دھڑکن یہ کیا ہوا دل کو
جو دیکھنی ہے تجھے اس جہان میں جنت
تو راہگیر مرے راستہ بنا دل کو
تری غزل کا دیوانہ ہوا ہے ہر کوئی
ہر ایک شعر یوں عمران چھو گیا دل کو