ہوئی ہوں گرچہ بہت در بدر تمہارے لئے
غزل لکھوں گی لکھوں گی مگر تمہارے لیے
بڑے ہی پھول لگائے ہیں میں نے نرگس کے
یہ دیکھ میں نے بنایا ہے گھر تمہارے لئے
نہ جانے کون سے رستے سے تو یہاں آئے
سجا رہی ہوں ہر اک رہ گزر تمہارے لئے
اُدھر چراغ رکھے تونے میری راہوں میں
جلا رہی ہوں دیے میں اِ دھر تمہارے لیے
جو میرے پاؤں میں چھالے ہیں آج تک فرحت
اذیتوں کا کیا ہے سفر تمہارے لئے