جب ندامت میں مری آنکھ سے نکلا پانی
ہوگیا دیکھ کے پتھر کا کلیجہ پانی
دل کا سارا ہی غبار اس میں نکل آتا ہے
قیمتی چیز ہے آنکھوں کا ذرا سا پانی
مجھ کو لگتا تھا کہ اب سوکھ گیا ہے دریا
محوِ حیرت ہوں کہ کیوں آنکھ سے نکلا پانی
جیسے صحرا میں ترستا ہے کوئی پانی کو
اتنی شدت سے مری پیاس کو ترسا پانی
میری غربت پہ نکل آئے ہیں چھت کے آنسو
اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ٹپکا پانی
شرط یہ ہے کہ خدا پر ہو یقینِ کامل
راستہ تم کو سمندر میں بھی دے گا پانی
اس کے ہاتھوں کی کرامت کا اثر تو دیکھو
اس کے چھونے سے ہوا جھیل کا میٹھا پانی
جھوم کے لی ہے تری یاد نے پھر انگڑائی
دل کو تڑپا گیا برسات کا پہلا پانی
زندگی خود ہی سنور جائے گی حرکت میں رہو
صاف و شفاف ہوا کرتا ہے بہتا پانی
کتنی دلکش ہے یہ قدرت کی مُلمع کاری
کردیا شام کے سورج نے سنہرا پانی
ہم کو رونے کی اجازت بھی نہیں ہے طالب
ہو مبارک تمھیں یہ آنکھ کا بہتا پانی