ہر گلی گھوم لوں مدینے کی
حسرتیں جاگ اٹھی ہیں سینے کی
نہ کسی پھول میں کلی میں ہے
جیسی خوش بو ہے اس پسینے کی
کیسی تابندگی ہے چہرے پر
آنکھ خیرہ ہے ہر نگینے کی
جس پہ آقا کے پیر پڑتے تھے
خاک وہ چوم لوں مدینے کی
جو بھی بیٹھا وہی بچایا گیا
شان ایسی ہے اس سفینے کی
جس میں راضی ہو وہ مرا آقا
وہ ادا آئے مجھ کو جینے کی
دن ہو مکہ میں سر بسر میرا
رات مل جائے اک مدینے کی