صبح اسرارِ نو کے اندر ہوں
میں تری دسترس سے باہر ہوں
لاکھ چشمے ابل پڑیں مجھ سے
میں ترے راستے کا پتھر ہوں
جھک کے ملنے سے قد نکلتا ہے
آج میں آپ کے برابر ہوں
میرا ہونا بھی ہے نہ ہونے سے
میں جہاں پر نہیں ہوں ،اکثر ہوں
امن کی جنگ جیتنی ہے مجھے
میں اکیلی ہی ایک لشکر ہوں
ہر سحر مجھ کو دیکھنا چاہے
شام کا دلفریب منظر ہوں
ساری دنیا مرے حصار میں ہے
ساری دنیا کا میں ہی محور ہوں
قصرِ ہجرت میں سو رہی ہوں میں
در بدر ہوں تو اپنے گھر پر ہوں
ہر کوئی بس جمال دیکھتا ہے
ورنہ کوثر نہیں ، قلندر ہوں