عکس ماضی کا نگاہوں میں چلا آتا ہے
ایک طوفان سا پاؤں میں چلا آتا ہے
عشق ایما ن ھے شامل جو ذرا سا شک ہو
کفر کا رنگ وفاؤں میں چلا آتا ہے
اس کو بچھڑے ہو ئے کتنے ہی برس بیت گئے
ہاتھ اٹھتے ہیں ، دعاؤں میں چلا آتا ہے
دل نہ چا ہے بھی تو سینے سے لگا لیتی ہوں
جب کوئی درد پناہوں میں چلا آتا ہے
چھوٹے آنگن میں ہوا کرتی ہے وسعت زیادہ
حبس شہروں کا بھی گاؤں میں چلا آتا ہے
ایسا لگتا ہے مجھے چھو کے ابھی گزرے ہو
تیرا پیغام ہواؤں میں چلا آتا ہے
ہم ترے شہر میں یوں کھینچے چلے آتے ہیں
کوئی جلتا ہوا چھا ؤں میں چلا آتا ہے