سرمگیں آنکھ کبھی یوں بھی تو بھر سکتا ہے
عکس تا دیر ترا اس میں ٹھہر سکتا ہے
مانا فرصت نہیں دنیا کے جھمیلوں سے تجھے
تو مجھے خط نہ لکھے فون تو کرسکتا ہے
جس نے لڑنا ہو اسے آتش و آہن کیا ہیں
جس نے ڈرنا ہے وہ سائے سے بھی ڈر سکتا ہے
رہنے دے تیر و تبر ، ہاتھ میں خنجر نہ اٹھا
مرنے والا تو فقط بات سے مر سکتا ہے
یہ بڑی گاڑیاں سجتی ہیں کھلی سڑکوں پر
تنگ گلیوں سے تو رکشہ ہی گزر سکتا ہے
میں سمندر ہوں غزل خود میں ہی رہنا ہے مجھے
تُو تو دریا ہے سمندر میں اتر سکتا ہے