ہاں مری وہ گردِ پا ہے کہکشاں کے ساتھ ہی
اڑ رہی ہے جو وہاں میرے گماں کے ساتھ ہی
کس قدر دشوار ہے پھرنا لیے دو چہرگی
اک جہاں کے بیچ ہم اور اک جہاں کے ساتھ ہی
بحر کی گہرائیاں ”یہ“، ”وہ“ خلا کی وسعتیں
کھیل انساں کا ہے جاری این و آں کے ساتھ ہی
کوہ و صحرا، غار و خیمہ سے قصور و شہر ہا
طے ہوئے یہ مرحلے طبعِ رواں کے ساتھ ہی
دوڑتے ہیں چاند تارے اور خورشید و زبیر
سب زمیں کے واسطے پر آسماں کے ساتھ ہی