نگاہوں سے قریں نہیں جو ہیں تصورات میں
کسی کو سب عطا ہوا نہیں کبھی حیات میں
مجھے تو لفظ کو قلم سے جوڑنے کا شوق تھا
ستم ہے اب کہ روشنائی تک نہیں دوات میں
مہاریں موڑ کر مجھے دوباره لوٹنا پڑا
تمہاری چشمِ بے یقیں لگی هوئی تھی گھات میں
لگا کدورتوں کی فصل اب تلک جوان ہے
مزاج تلخیوں بھرا ہے طنز بات بات میں
کسی کا رنگ ہے چھپا کسی کے لفظ ظاہری
طرح طرح کے لوگ ہیں جہانِ بے ثبات میں
بس ایک لفظ کن کہا ہزاروں پھول کھل اٹھے
ہزاروں کہکشائیں ہیں خدا کی کائنات میں
کوئی تھا جس نے معجزه سخن سے ماورا کیا
میں سر سے پاتلک نئی ہوں ایک رات میں