وہ جو مثلِ سراب ہوتے ہیں
وہ ہی عزّت مآب ہوتے ہیں
جب بھی وہ بے نقاب ہوتے ہیں
سارے منظر عذاب ہوتے ہیں
گلچیوں کو عذاب ہوتے ہیں
گُل جہاں پُرشباب ہوتے ہیں
خوب وہ کامیاب ہوتے ہیں
جو مرے ہم رکاب ہوتے ہیں
جن کے مفلوج ادبی لہجے ہیں
وہ ہی تاج الخطاب ہوتے ہیں
ان کی چاہت میں لگنے والے سبھی
زخم مہکے گلاب ہوتے ہیں
آ ہی جاتی ہیں منزلیں نزدیک
جب قدم پُر شتاب ہوتے ہیں
میرے لہجے کی اُف چمک توبہ
آئینے بے نقاب ہوتے ہیں
شب کے آنچل میں جگنوؤں کے بدن
صورتِ ماہتاب ہوتے ہیں
ہائے توبہ کہ اس خرابے میں
"لوگ ناحق خراب ہوتے ہیں"
نیند نے لے لیا پناہوں میں
چلیے ہم محوِ خواب ہوتے ہیں
چاند چہروں کے سامنے کیفی
آئینے لاجواب ہوتے ہیں