حترم قارئین! انگریز لکھاری جناب George Orwell کے ناول Animal farm کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ شہرہ آفاق ناول کئی ممالک کے تعلیمی نصاب کا حصہ بھی حصہ ہے۔ اس کے دس ابواب ہیں اور ہر بار ایک باب کا اردو ترجمہ دیا جایا کرے گا۔ مدیر اعلیٰ
رات ڈھلتے ہی باڑہ کے مالک مسٹر جونزؔ نے مرغیوں کے ڈربے تو بند کر دئیے لیکن شراب کے نشہ میں دُھت ہونے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے سوراخ بند کرنا بھول گیا تھا۔جھولتی ہوئی لالٹین کی روشنی کے ہالہ میں اس نے لڑکھڑاتے ہوئے صحن عبور کیا ، عقبی دروازہ کو ٹھوکر مار کر کھولا اور باورچی خانہ سے ملحقہ شراب خانہ سے اپنے لیے ایک جام تیار کیا اور خواب گاہ کی راہ لی جہاں اس کی بیوی کے خراٹے گونج رہے تھے۔
خواب گاہ کا چراغ گل ہونے کی دیر تھی کہ باڑہ میں کھسر پھسر شروع ہو گئی۔ دراصل اس دن باڑہ کے جانوروں میں یہ خبر گرم تھی کہ درمیانی قامت کے سفید اور بوڑھے ذہین جنگلی سؤر میجرؔ نے ، گزشتہ رات ایک عجیب و غریب خواب دیکھا تھا ، اور وہ چاہتا تھا کہ سارے جانور اس خواب کو سن لیں۔ چنانچہ تمام جانور اس پر متفق ہوگئے کہ مسٹر جونزؔ کے نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہی وہ باڑہ کے ایک بڑے صحن میں اکٹھے ہو کر یہ خواب سنیں گے۔اولڈ میجرؔ کہلانے والا یہ جنگلی سؤر ’’ولنگڈن بیوٹی‘‘کے نام سے بھی مشہور تھا اور تمام جانوروں میں اس قدر محترم مانا جاتا تھا کہ ہر جانور اس کا خواب سننے کے لیے اپنی ایک ایک گھنٹہ کی نیند قربان کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا۔
بڑے صحن کے ایک سرے پر ذرا سے بلند چبوترہ کے شہتیر سے لٹکتی ہوئی لالٹین کے عین نیچے، بھوسہ کے بستر میں میجرؔ پہلے سے ہی دبکا بیٹھا تھا۔ وہ ایک بارہ سالہ لحیم شحیم لیکن پر وقار شخصیت کا مالک تھا نیزدانش مند اورنہایت ہمدرد واقع ہوا تھا۔ کچھ ہی دیر میں دیگر جانور بھی یکے بعد دیگرے وہاں پہنچنا شروع ہو گئے اور اپنے اپنے مخصوص انداز میں آرام کے ساتھ بیٹھتے گئے۔سب سے پہلے بلیوبیل ؔ ، جیسیؔ او رپچر ؔ نامی تین کتے آئے۔ ان کے بعد سؤر، جو آتے ہی چبوترہ کے سامنے بچھے بھوسہ پر براجمان ہو گئے، مرغیوں نے کھڑکی میں پیوست لکڑی کے تختوں کو اپنا مسکن بنا لیااور کبوتر اپنی مضطرب طبیعت کے ہاتھوں مجبور شہتیروں کے اوپر ہی پھڑپھڑانے لگے۔بھیڑوں اور گایوں نے سؤروں کے پیچھے جگہ بنا لی اور وقت ضائع کرنے کی بجائے جگالی شروع کر دی۔ چھکڑے میں جوتے جانے والے دونوں گھوڑے باکسر ؔ اور کلوورؔ اپنی باری پر بالوں سے بھرے ہوئے اپنے چوڑے چوڑے سم انتہائی احتیاط سے بھوسہ پر رکھتے ہوئے آہستہ روی سے چلتے ہوئے آئے مبادا بھوسہ میں دُبکا بیٹھا کوئی جانوران کے بڑے بڑے پیروں تلے آکر روندا جائے ۔ کلوورؔ ادھیڑ عمر کی ایک فربہ اندام گھوڑی تھی لیکن ا س کا بدن چوتھا بچھیرا جننے کے بعد پہلے جیسا نہ رہا تھااور باکسرؔ اٹھارہ ہاتھ بلند قامت والا زبردست اور دوگھوڑوں کے برابر طاقتور جانور تھا۔لیکن شومئی قسمت سے ناک کے
نیچے موجود ایک سفید دھاری اس کی مستقل حماقت کی مسلسل غمازی کرتی دکھائی دیتی تھی۔حقیقت بھی یہی تھی وہ واقعتاپرلے درجہ کا احمق اور گاؤدی واقع ہوا تھا۔لیکن اس کے عزم، مضبوط کردار اور انتھک کام کی صلاحیت نے اسے صاحب عزت بنا دیا تھا۔گھوڑوں کے پیچھے پیچھے میوریلؔ نامی سفید بکری اورباڑہ کا سب سے قدیم باسی اور معمر گدھا بینجمنؔ آ ئے۔
بینجمنؔ نرا گدھا ہی تھا بے حد غصیلا لیکن خاموش طبع اور جب بولتا احمقانہ بات کرتا ۔مثلاً: اس کا مقولہ تھا کہ خدا نے اسے مکھیاں اڑانے کی غرض سے دُم تو دے دی ہے لیکن اُس دن کیا ہو گا جب نہ تو مکھیاں رہیں گی اور نہ ہی اُس کی دم؟اسے دیگر جانوروں کے ساتھ بیٹھ کر ہنستے اور خوش گپیاں ہانکتے کبھی نہ دیکھا گیا تھا۔ جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو صاف کہنے لگا کہ’’بھئی!مجھے تو کوئی ایسی بات دکھائی ہی نہیں دیتی کہ جس پر ہنسا جائے‘‘البتہ سبھی جانتے تھے کہ دوستی کابظاہر اعتراف یا اقرار کئے بغیر باکسرؔ کے ساتھ اس کی گاڑھی چھنتی ہے۔ کیونکہ ہر اتوار کو وہ باغ سے کچھ دور واقع ایک چھوٹے سے سر سبز میدان میں بنا کوئی بات کئے گھنٹوں چرتے رہتے ہیں۔
ان کے بیٹھتے ہی بی بطخ کے بچے قطار بنائے آپہنچے۔ وہ بے چارے بے یارو مددگار تھے کیونکہ ان کی ماں کہیں کھو گئی تھی۔ چیں چیں کرتے، پھدکتے ہوئے یہ بچے جانوروں کو متوجہ کر رہے تھے کہ کہیں انہیں کچل ہی نہ دیا جائے۔ اب وہ کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں تھے کہ جہاں وہ سکون سے بیٹھ سکیں۔ ان کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے کلوورؔ نے اپنی اگلی ٹانگ نیم دائرہ کی صورت میں بچھا دی اس محفوظ نیم دائرہ میں بچے پر سکون ہو کر بیٹھ گئے ۔ سار ادن اٹھکیلیاں کرتے تھکے ہارے یہ بچے محفوظ جگہ پاتے ہی گہری نیند کی آغوش میں چلے گئے ویسے بھی انہیں کسی اجلاس سے کیا مطلب تھا۔وہ تو ابھی ننھے منے چوزے تھے لہٰذا سیاست سے ابھی ان کا دور رہنا ہی بھلا تھا۔اسی وقت بظاہر احمق دکھائی دینے والی خوبصورت سی چٹی گوری گھوڑی مولیؔ شکر کا ڈلا چباتی ، ایک انداز ِ دلبرانہ سے اٹھلاتی ہوئی اندر آئی اور چبوترہ کے قریب ہی جگہ بنا کر بیٹھ گئی ۔ اس کی تجاہل عارفانہ والی بے نیازی دیدنی تھی۔ فارغ بیٹھنے کی بجائے اس نے بہتر سمجھا کہ سرخ فیتوں سے گندھی ہوئی ایال کی چوٹیوں سے کھیلاجائے۔تاکہ وقت بھی ضائع نہ ہو اور دوسروں کو اپنی انفرادیت کا احساس بھی دلا یا جاسکے۔ ویسے مسٹر جونزؔ ؔکا ڈالا ہوا پٹہ بھی اس کی گردن میں جھول رہا تھا۔سب سے آخر پر چالاک بلی آئی اور حسب معمول گرم جگہ کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھنے لگی بالآخر کلوورؔ اور باکسر ؔ کے سایۂ عاطفت میں جگہ پائی دونوں کے درمیان خالی جگہ میں گھس کر بیٹھ گئی اور اپنی عادت سے مجبور دوران اجلاس آنکھیں بند کئے مسلسل خرخراتی رہی۔
لیجئے جناب اب پالتو کوے موززؔ کے علاوہ سبھی حاضر تھے وہ دراصل عقبی دروازہ کے پیچھے واقع گھونسلہ میں سویا پڑا تھا۔ جب میجر ؔنے ان سب کو خاموش اور ہمہ تن گوش پایا تو کھنکارتے ہوئے گویا ہوا:
’’صاحبو!آپ سب کو اس عجیب و غریب خواب کی بابت معلوم ہو چکا ہے جو گزشتہ رات مجھے دکھایا گیا لیکن اس خواب کے بیان کرنے سے قبل میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اُس حقیقت سے بھی آپ لوگوں کو آگاہ کر دوں جو میرے دل میں کسی پھانس کی طرح اَٹکی ہوئی ہے۔ساتھیو! مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں اب زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہوں گالہٰذا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ مرنے سے پہلے پہلے عمر بھر کی کمائی کا نچوڑ آپ کے گوش گزار کرتا جاؤں۔آپ سب جانتے ہیں کہ میں نے طویل عمر پائی ہے، جس میں مختلف حالات سے بھی میرا پالا پڑا اور پھر اِس چبوترہ پر لیٹے لیٹے خلوت میں بھی غور و فکر کرتا رہا ہوں اوربزعمِ خود میںیہ کہنے میں حق بجانب ہوںکہ دوسرے ہر زندہ جانور کی طرح میں بھی کرۂ ارض پر سانس لیتی ہوئی زندگی کے نشیب و فراز اورزمینی حقائق کو خوب سمجھتا ہوں۔آج میں دراصل اسی موضوع پر تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
ساتھیو! کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہماری زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ چلیے آج میں اِس پر کچھ روشنی ڈالتا ہوں۔ فی الحقیقت ہماری قابلِ رحم زندگی انتہائی مختصراور محنت کشی کی جیتی جاگتی تصویر ہے ۔ ہماری پیدائش کا تو جیسے کوئی مقصد ہی نہیں،کیونکہ ہمیں صرف اسی قدر غذا مہیا کی جاتی ہے جس سے ہماری زندگی کا تانا بانا جڑا رہ سکے، جس سے ہمارا بدن اس قدر توانا رہ سکے کہ ہم سے بآسانی بے گار لی جاسکے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہم میں سے کام کی تھوڑی بہت سکت رکھنے والوں کو خون کے آخری قطرہ تک کام کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور جیسے ہی ہمارے قویٰ کمزور اور بدن لاغر ہونے لگتے ہیں تو ہمیں محنت کا صلہ دینے کی بجائے انتہائی بے دردی کے ساتھ ذبح کر دیا جاتا ہے۔ہماری خوشیوں کا دورانیہ محض زندگی کے پہلے ایک سال تک محدود ہے ، سبھی جانتے ہیں کہ یہاں یعنی برطانیہؔ میں ایک سال کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد ہر جانور خوشی، انبساط اور آزادی کے معانی تک بھول جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ برطانیہؔ میں کسی جانور کو آزادی نصیب نہیں۔ وائے افسوس! ایک جانور کی زندگی پیہم دُکھ اور نہ کٹ سکنے والی غلامی کی زنجیروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔
سوچنا تو یہ چاہئے کہ کیا یہ سب قانون ِ قدرت کا حصہ ہے؟کیا اِس کی وجہ ہماری دھرتی کی غربت ہے؟ کہ اپنی چھاتی پر بسنے والوں کو ایک باوقار زندگی مہیا کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی؟ نہیں دوستو، ہر گز نہیں!! برطانیہؔ کی مٹی ایسی زرخیز اور اس کی آب و ہوا اتنی اعلیٰ ،عمدہ اوربا صلاحیت ہے کہ موجودہ تعداد سے کہیں زیادہ جانوروں کو بھی بہترین خوراک مہیا کر سکتی ہے۔میں یہاں اپنے اس باڑہ کی ہی مثال دوں گا کہ یہاں بلامبالغہ درجن بھر گھوڑے، بیسیوں گائیاں اور سینکڑوں بھیڑیںبیک وقت بخوبی پل سکتی ہیںاور ہمارے تصور سے بھی کہیں بڑھ کر باوقار اور پرسکون زندگی گزار سکتی ہیں۔
پھر ہماری حالت اس قدر دگر گوں کیوں ہے؟اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ انسان ہماری محنت کی ساری کمائی سمیٹ کر لے جاتا ہے۔ دوستو! اس مسئلہ کی واحد وجہ اگر ایک لفظ میں بیان کی جائے تو یہ کہہ دینا کافی ہو گا کہ ’’انسان‘‘۔ گویاہمارا اصل دشمن ِ جاں انسان ہے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگرہم انسان کو اپنے رستہ سے ہٹا دیں تو ہمارے سارے دلدر دور ہو نے کے ساتھ ساتھ ہمارے افلاس ، بھوک ننگ اور حد سے زیادہ محنت کی بنیادی وجہ خودبخود ختم ہو جائے گی۔
یہ انسان ہی ہے جو محنت کئے بغیر کھاتا ہے کیونکہ نہ تو اس میں دودھ دینے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی انڈہ دینے کی اہلیت۔نہ ہل چلانے کی طاقت رکھتا ہے اور نہ ہی کسی جنگلی خرگوش کا شکار کرتے ہوئے اس قدر تیزی سے بھاگنے کی سکت کہ اسے پکڑ سکے۔اس کے باوجود اسے تمام جانوروں پر فوقیت حاصل ہے، اس پر طرہ یہ کہ وہی ان کے لیے تقسیم کار کرتا ہے لیکن محنت کا معاوضہ بھی پورا نہیں دیتا ۔محض اس قدر لوٹاتا ہے کہ سانسوں سے زندگی کا رشتہ قائم رہ سکے اور باقی سارا خود ہڑپ کرجاتا ہے۔اس کے باوجود کہ ہم انتھک محنت سے زمین کاشت کرتے ہیں اور ہماری ہی کھاد اسے زرخیز کرتی ہے لیکن وائے افسوس! ہم اپنی کھال تک کے بھی وارث نہیں؟ میں یہاں موجود گایوں سے پوچھتا ہوں کہ گزشتہ ایک سال میں تم نے کتنے ہزار گیلن دودھ دیا تھا وہ تو تمہارے بچھڑوں کی پرورش میں استعمال ہونا چاہئے تھا لیکن ہوا کیا؟ اس کا ایک ایک قطرہ ہمارے دشمن کی رگوں کو تر کرتا ہوا اس کے حلق سے نیچے جا اتر ا۔اور مرغیو! تم بتاؤ کہ تم نے گزشتہ سال کتنے انڈے دئیے اور ان میں سے کتنے تھے جوچوزے نکالنے کے لیے سیئے گئے اور کتنے جونزؔ اور اس کے ملازمین کے پیٹ کا دوزخ پالنے کی خاطر سرِ بازار فروخت کر دئیے گئے؟ اور کلوورؔ تم بتاؤ! تمہارے وہ چار بچھیرے کہاں ہیں جو تم نے اپنی جان پر کھیل کر جنے تھے؟ انہیں تو تمہارے بڑھاپے کا سہارا اور آنکھوں کا تارا ہونا چاہئے تھا وہ تم سے چھین کر محض ایک سال کی عمر میں ہی بیچ ڈالے گئے!ہائے ! تم زندگی بھر دوبارہ ان کی جھلک نہ دیکھ پاؤ گی لیکن تمہارے ان چار معصوم بچوں اور کھیتوں میں انتھک محنت کے بدلہ میں تمہیں کیا ملا، سوائے دو وقت کی روٹی اور ایک بستر کے؟
اِس پر مستزاد یہ کہ ہم میں سے اکثر اپنی طبعی عمر پوری کر کے اجل مسمیٰ تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔مجھے تو زندگی سے کوئی شکوہ نہیں کیونکہ میں ان چند ایک خوش نصیبوں میں سے ہوں جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد پورا کر لیا ہے۔ میری عمر اس وقت بارہ سال ہوچکی ہے اور میری اولاد چار سو سے بھی تجاوز کر چکی ہے، جو دراصل ایک سؤر کی زندگی کا نصب العین ہوتا ہے لیکن بالآخر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، آخر کو اک دن چھری کے نیچے آئے گی۔ سو میرے سامنے بیٹھے ہوئے اے میرے سؤر بچو!آج سے ایک سال بھی نہیں گزرنے پائے گا کہ تم بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اسی خوفناک انجام سے دوچار ہونا ہے خواہ وہ گائے ہو یا بھیڑ، سؤر ہو یا مرغی۔ حتیٰ کہ گھوڑوں اورکتوں کا انجام بھی اِس سے کچھ مختلف نہیں۔ پیارے باکسرؔ! جب تمہارے قویٰ مضمحل ہوجائیں گے اور تم کام کرنے کے قابل نہیں رہو گے تو مسٹر جونزؔ تمہیں کسی ظالم قصاب کے حوالہ کر دے گا جہاں بے دردی کے ساتھ ذبح کرکے تمہارا گوشت اُبال کرشکاری کتوں کو کھلا دیا جائے گا۔ رہی کتوں کی بات تو میں ایک لمبے عرصہ سے دیکھتا چلا آیا ہوں کہ جب وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں اور ان کے دانت گرنے لگتے ہیں تو جونزؔ ان کی گردنوں میں بھاری پتھر باندھ کر اس نزدیکی تالاب میں ڈبو دیا کرتا ہے۔
توساتھیو! کیا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نہیں ہو چکی کہ ہماری تمام کٹھنائیوں کا باعث صرف اور صرف انسان ہے؟ یہ انسان ہی ہے جو مسلسل ہمارا استحصال کر رہا ہے۔ اس لیے محض انسان سے چھٹکارا پا لینے پرہم اپنی محنت کی کمائی کے اکیلے وارث اور حقدار ٹھہر سکتے ہیں۔ یوں ہم راتوں رات آزاد اور دولت مند ہو جائیں گے۔ سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ اس کے لیے ہمیں کرنا کیا ہو گا؟آخر ہم دن رات کی یہ جان توڑ محنت بنی نوع انسان کو شکست دینے کی غرض سے کیوں نہ کریں؟ دوستو! مجھے تو ایک ہی حل دکھائی دیتا ہے۔ ’’بغاوت‘‘میں یہ تو نہیں جانتا کہ یہ بغاوت کب ظہور پذیر ہوگی، شاید ہفتہ بھر میں یا ایک سو سال میں، لیکن میں اس یقین پر قائم ہوں کہ جلد یا بدیرانصاف کا ترازو قائم ضرور کیا جائے گا۔مجھے اس امر کا یقین ایسا ہی پختہ ہے جیسا یہ کہ میں بھوسہ کے ڈھیر پر کھڑا تم سے خطاب کر رہا ہوں۔
دوستو! اپنی باقی ماندہ زندگی میںاسی ایک بات پر نظر رکھو کہ اور سب سے اہم بات یہ کہ جو حاضر ہیں وہ غیر حاضر ساتھیوں تک میر ا یہ پیغام پوری ذمہ داری سے پہنچادیں اور یہ بھی کہ اپنی آئندہ نسلوں کو سینہ در سینہ یہ راز منتقل کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ یہ کام مکمل ہو جائے۔
ساتھیو! تمہارے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہ آئے، نہ ہی کوئی دلیل تمہارے پختہ عزم کو کمزور کر سکے۔ ایسی کسی بات پر کبھی کان نہ دھرناکہ انسان اور جانور کا مفاد مشترکہ ہے یا یہ کہ ایک کی خوش حالی دوسرے کی خوش حالی سے وابستہ ہے یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے۔ حقیقت صرف یہ ہے کہ انسان ایسا خود غرض ہے کہ اسے اپنے سوا کسی اور مخلوق کا مفاد عزیز نہیں ہوتا۔
اور اے جانورو! باہمی اخوت اور بھائی چارہ کو مد نظر رکھتے ہوئے متحد رہو اوراپنے نصب العین کے حصول کی خاطرباہمی ہم آہنگی اور بھرپور رفاقت قائم رکھو۔‘‘
ابھی یگانگت کی فضا قائم رکھنے کی بات ہو ہی رہی تھی کہ اچانک جانوروں میں ایک بھگدڑ مچ گئی، ہوا یہ تھا کہ میجرؔ کا خطاب سننے کیلئے چاربڑے بڑے چوہے جیسے ہی اپنے بلوں سے باہر نکلے تو کتوں کی نظر اچانک ان پر جاپڑی وہ انہیں پکڑنے کو لپکے اوربے چارے چوہے اپنی جان بچانے کے لیے بلوں کی طرف بھاگ نکلے ۔ انہیں تو اپنی جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ یہ ساری بھگدڑ اسی لیے مچی تھی۔اس طوفانِ بد تمیزی کو ختم کرنے کے لیے میجرؔ نے
اپنا پنجہ زمین پر زور سے مارا، جانور خاموش ہو ئے تو میجرؔ نے سلسلۂ کلام دوبارہ وہیں سے جوڑتے ہوئے کہا :
’’صاحبو! آج ہمیں یہ فیصلہ بھی کر لینا چاہئے کہ جنگلی جانور جیسے چوہے اور خرگوش وغیرہ ہمارے دوست ہیں یا دشمن؟ چلیں اِس پر رائے شماری کر لیتے ہیں۔مجلس کے سامنے میں یہ سوال رکھتا ہو ں کہ آیا یہ بھی ہمارے ساتھی ہیں؟‘‘
فوراً ہی رائے شماری کی گئی اور اکثریت کے متفقہ فیصلہ کے مطابق چوہے ان کے ساتھی قرار پائے۔ مخالفت میں صرف چار ووٹ پڑے تھے یعنی تین کتے اور ایک بلی۔یہ عقدہ بعد میںکھلا کہ انہوں نے دونوں طرف ووٹ ڈال دئیے تھے۔ووٹنگ کے بعد میجرؔ نے خطاب دوبارہ شروع کیا ـ:
’’میں اپنی بات کو دُہراتے ہوئے کچھ مزید گزارش کرناچاہتا ہوں۔ انسان اور اس کے طرزِ زندگی کے ساتھ عداوت کو اپنا اولین فریضہ سمجھو ہمیشہ یاد رکھو کہ دو ٹانگوں والا ہر کوئی تمہارادشمن جبکہ ہر چوپایااور پرندہ تمہارا دوست ہے۔ یہ بھی مد نظر رہے کہ جنگ کے حالات میں انسان کے خلاف کوئی انسانی حربہ ہر گز نہیں اپنانا اور ان پر فتح پا لینے کے بعد ان کی بری عادات سے مکمل اجتناب کرنا مثلاً:
٭ نہ تو کوئی جانور گھر بنا کر رہے اور نہ ہی سونے کے لیے بستر استعمال کرے،
٭ نہ پہننے کے لیے لباس استعمال کرے اور نہ اس سے ملتی جلتی اشیاء،
٭ تم میں سے ہر کوئی شراب سے بکلی اجتناب کرے اور سگریٹ نوشی سے مکمل پرہیز،
٭ تم میں سے کوئی بھی روپیہ پیسہ کو ہاتھ تک نہ لگائے اور نہ ہی امور ِ تجارت میں پڑے،
٭ یاد رکھو تمام انسانی عادات بری اور گندی ہیںان سے پرہیز ازبس ضروری ہے بالخصوص اپنے ہم جنسوں کے استحصال سے ہمیشہ بچتے رہنا۔
٭ یاد رکھو کہ کمزور ہو یا طاقتور ، ہوشیار چالاک ہو یا سادہ لوح تمام جانور بھائی بھائی ہیں،
٭ اور یہ بھی یاد رکھو کہ کوئی جانور کسی دوسرے جانور کو قتل نہیں کرے گا ، کیونکہ تمام جانور برابر ہیں۔
لو صاحبو! اب میں تمہیں گزشتہ رات کے خواب کی بابت بتاتا ہوں۔ میں اس میں اس خواب کی منظر کشی کرنے سے قاصر ہوں۔پھر بھی ٹوٹے پھوٹے الفاظ کا سہارا لے کر کوشش کرتا ہوں۔مجھے زمین کی وہ حالت دکھائی گئی جب انسان صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گانیز اس خواب نے مجھے ایک ایسی بات یاد دلائی جو میرے حافظہ کی لوح سے محو ہو چکی تھی۔ برسوں پہلے جب میں ابھی دودھ پیتا بچہ تھا تو میری ماں دیگر جانوروں کے ساتھ مل کر ایک بھولا بسرا گیت گایا کرتی تھی۔اس گیت کی انہیں صرف لے اور چند ایک الفاظ یاد تھے وہ لے بچپن میں ہی مجھے ذہن نشین ہو گئی تھی لیکن مرورِزمانہ کے ساتھ ساتھ میرے ذہن سے بالکل اتر چکی تھی تاہم گزشتہ رات کے خواب سے وہ میرے ذہن میں دوبارہ مستحضر ہو گئی ہے۔ مزید برآں یہ کہ اس گیت کے الفاظ بھی مجھے یاد آگئے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہی الفاظ میری ماں دیگر جانوروں کے ساتھ مل کر گایا کرتی تھی۔میں وہ گیت آپ لوگوں کو سنانا چاہتا ہوں بڑھاپے کی وجہ سے میری آواز بھدی ہو چکی ہے لیکن اگر میں ایک مرتبہ آپ لوگوں کو یہ لے اور گیت سکھا دوں تو آپ لوگ مجھ سے بہتر انداز میں گا سکیں گے اس کا نام ہے : ’’برطانیہؔ کے جانور‘‘۔
بوڑھے میجرؔ نے کھنکارتے ہوئے گیت کی لے پکڑی۔بقول اس کے اس کی آواز بھدی تھی لیکن پھر بھی اس نے بہت اچھے انداز میں اسے گایا۔اس کی اٹھائی ہوئی لے’’کلیمن ٹائن‘‘اور ’’لکو کراچا‘‘سے ملتی جلتی اور جذبات کو انگیخت کرنے والی تھی۔جس کے الفاظ کچھ یوں تھے:
’’میرے دیس میں بسنے والو ،
آئر لینڈؔ میں رہنے والو!
ہر خطہ میں، ہر ماحول میں پلنے والو!
کان دھرو میری باتوں پر!جو ہیں روشن مستقبل والی ۔
خوشخبری یہ غور سے سن لو! وہ دن بس آنے والا ہے،
ظالم ،غاصب انسانوں کی صفیں لپیٹ دی جائیں گی،
اس دن باغوں اور فصلوں پر،صرف ہمارا قبضہ ہوگا۔
خالی ہو جائے گی اس دن اپنی ناک نکیلوں سے،
اور پھر اُس دن گر جائے گی زین ہماری پیٹھوں سے ،
مل جائے گاچھٹکارا بھی اک دن ہمیں لگاموں سے ،
نہ ہم ہانکے جائیں گے اورنہ برسیں گے کوڑے بھی ،
ہو جائیں گے دولتمنداوروافر ہو گی گندم بھی ،
باجرہ ، جی اور گھاس ،ترفل ، پھلیاں بھی اور چارہ بھی،
اُس دن ہم ہی مالک ہو ں گے، صرف ہمارا قبضہ ہو گا۔
جگمگ جگمگ کھیتی ہو گی،
خالص اور شفاف لگیں گے،یہاں کے بہتے پانی بھی،
فرحت بخش ہوائیں ہوں گی ٹھنڈی بھی اور میٹھی بھی،
دن یہ ہو گا آزادی کا ،صرف ہمارا قبضہ ہو گا۔
وہ دن دیکھیں یا نہ دیکھیں ، اس کو پالینے کی خاطر،
پوری جان لڑانا ہو گی ، ہم کو محنت کرنا ہو گی،
ہر اک گائے، بھینس اور گھوڑا، ہنس راج، سؤر اور پیرو،
سب کو آزادی کی خاطر انتھک محنت کرنا ہو گی۔
میرے دیس میں رہنے والو،
آئر لینڈ ؔمیں بسنے والو!
ہر خطہ اور ہر ماحول میں پلنے والو!
دھیان لگاؤ ان باتوں پر ،
خوشخبری یہ غور سے سن لو !
اپنے روشن مستقبل والی!‘‘
اس گیت نے تمام جانوروں کے دل جوش و جذبہ اور نئے ولولہ سے اس قدر بھر دئیے کہ قبل اس کے کہ میجر ؔ اسے مکمل کرتا، سبھی جانوروں نے گنگنانا شروع کر دیا۔ ذہین سؤروں اور کتوں نے تو سارے کا سارا گیت چند منٹوںمیں زبانی یاد کر لیا تھا اور زیادہ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ کند ذہن جانوروں نے بھی اس کی لے اپنانے کے اپنانے کے ساتھ ساتھ کچھ الفاظ یادکر لیے تھے اور پھر تھوڑی سی کوشش کے بعد سارا فارم ’’برطانیہؔ کے گیت‘‘سے گونج اٹھا۔ گایوں نے ڈکرا ڈکرا کر ، کتوں نے جھینک جھینک کر، بھیڑوں نے ممیا ممیا کر ، گھوڑوں نے خوشی سے ہنہنا ہنہنا کر اور بطخوں نے قیں قیں کر کے یہ گیت گایا۔یہ گیت انہیں اس قدر بھا گیا اور ان کے دل کے تاروں کو چھو گیا تھا کہ اسی وقت انہوںنے اسے پانچ مرتبہ مسلسل گایااور اگر مداخلت نہ ہو جاتی توشائد وہ ساری رات ہی یہ راگ الاپتے رہتے۔
ہوا یوں کہ بد قسمتی سے اس شوروغوغا سے مسٹر جونز ؔکی آنکھ کھل گئی وہ سمجھا کہ کوئی بھیڑیا باڑہ میں گھس آیا ہے چنانچہ وہ بجلی کے کوندے کی طرح لپکتاہوا بستر سے نکلا اور خواب گاہ میں رکھی ہوئی بندوق اٹھائی، آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اندھیرے کی طرف رخ کر کے چھ نمبر کی ایک گولی داغ دی، گولی کے کچھ شرے باڑہ کی دیوار میں پیوست ہوگئے جس کے نتیجہ میں جانوروں کی مجلس منتشر ہو گئی ، جس کا جہاں سینگ سمایا دراز ہوگیا۔پرندے اپنے رین بسیروں میں جا گھسے، اور دیگر جانور وں نے بھوسہ میںہی دبک جانے کو غنیمت جانا۔یوں پل بھر میں سارے فارم پر جیسے موت کا ساگہرا سکوت چھا گیا۔
George Orwell