کہانیاں حقائق سے ہی جنم لیتی ہیں۔ وہی حقائق جو ہمارے معاشرے کے ہیں۔ جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ اس کہانی میں جتنے بھی کردار ہیں وہ سب حیات ہیں سوائے ایک خاتون کے۔ جو پچھلے سال خالق حقیقی سے جا ملی۔ اس کی وفات چونکہ سردی کے اس موسم میں ہوئی تھی تو اب اسی موسم میں وہ سب کردار میرے ذہن میں گردش کر رہے۔میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے۔ اس لیے میں نام تبدیل کر رہی۔
حبیب الرحمٰن گورنمنٹ میں اچھی پوسٹ پہ آفیسر تھا۔ شادی شدہ تھا اور تین بچے بھی تھے۔ دو بیٹے ایک بیٹی۔ زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ حبیب الرحمٰن رشوت خور تو نہیں تھا مگر اپنے عہدے کا ہر فائدہ ضرور اٹھاتا تھا۔ عورتوں سے دوستی محبوب مشغلہ تھا۔ اس کی بیوی چوتھی دفعہ امید سے تھی۔ اور اسی حالت میں ایک دن حبیب الرحمٰن دوسرا نکاح کر کے ایک عورت کو ساتھ لے آیا۔ بظاہر تو دوسرا نکاح گناہ نہیں تھا مگر ان کے سلوک نے گناہ بنا دیا۔ حبیب الرحمٰن کی دوسری بیوی شگفتہ نے اس کی پہلی بیوی زینب کو دھکے دے کر گھر سے نکالا۔ باپ نے بچوں کو بھی ساتھ نہ جانے دیا۔ اور وہ بیچاری نازک حالت میں اپنے گاؤں پہنچی اور زمینداروں نے اسے پناہ دی۔ جہاں کچھ ماہ بعد اس نے اپنی دوسری بیٹی کو جنم دیا اور اس کا نام سائرہ رکھا۔
دوسری طرف حبیب الرحمٰن اپنی نئی بیوی شگفتہ سے پوری طرح مطمئن تھا۔ شگفتہ چونکہ نکاح کے دو بول لے کر آئی تھی اس لئے زینب کا سارا سامان اسی نے استعمال کیا۔ اس کے نئے بستر جو ابھی تک نکالے بھی نہیں تھے۔ سب کچھ شگفتہ نے استعمال کیا۔ حبیب الرحمٰن کی بڑی بیٹی تب آٹھ سال کی تھی۔ تارا نام تھا اس بچی کا۔ جس پہ شگفتہ نے بہت ستم کیے۔ خاوند کی غیر موجودگی میں نا محرم مرد بھی گھر آتے۔ ہر طرح کا ناجائز تعلق اس عورت نے بنا رکھا تھا۔ اگر تارا باپ کو کچھ بتاتی تو اسےگرم استری لگاتی ۔ سکول بھی چھڑوا لیا۔ اور گھر میں اپنی ملازم بنا کر رکھا۔ شگفتہ کی طبیعت میں حاکمیت اس درجہ تھی کہ وہ جوتا پہن کے تارا کو بولتی میرے پاؤں میں ہی جوتا صاف کرو۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ شگفتہ کو پہلی اولاد بیٹی ہوئی جسکا نام ثمن رکھا گیا۔ تارا نے ثمن کو ماؤں کی طرح پالا۔ ثمن کے بعد شگفتہ کو اللہ نے بیٹا بھی عطا کیا۔جب وہ چار سال کا ہوا تو ایک دن حبیب الرحمٰن نے شگفتہ کو اپنے ہی گھر میں غیر مرد کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں پکڑ لیا۔ حبیب الرحمٰن نے بیٹا اور بیٹی رکھ کے شگفتہ کو طلاق دے دی۔ اور زینب کی طرف رجوع کیا۔ مگر زینب نے کہا :
حبیب الرحمٰن میں تم سے طلاق بھی نہیں لوں گی اور تمہارا انجام دیکھنا چاہتی ہوں۔
وہ واپس نہ آئی۔ حبیب الرحمٰن نے تیسری شادی کر لی۔ اس کی سالی بھی اپنی بہن کے ساتھ آئی تھی۔ جو نوجوان خوبرو اور کافی تیز لڑکی تھی۔ آتے ہی حبیب الرحمٰن کے بڑے بیٹے کے ساتھ مراسم قائم کر لیے۔ ایک دن حبیب الرحمٰن کے بیٹے نے اسے کسی اور لڑکے کے ساتھ دیکھ لیا اور جوش میں آ کر اس کا قتل کر بیٹھا۔ جس کے نتیجے میں اسے عمر قید ہو گئی اور وہ جیل چلا گیا۔
تارا کی شادی بھی چھوٹی سی عمر میں کر دی گئی۔ جبکہ شگفتہ میں سے جو حبیب الرحمٰن کی بیٹی ثمن تھی اس کی شادی حبیب الرحمٰن نے اپنے چچازاد بھائی کے بیٹے سے کر ڈی۔قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ثمن کو شادی کے بعد خدا نے جو آس لگائی تھی وہ اسے مہینے پہ پہنچ چکی تھی جو تارا کی ماں کا تھا۔ جب ثمن کی ماں شگفتہ نے اسے دھکے دیکر گھر سے نکالا تھا۔ ثمن کا اپنے سسرال والوں سے جھگڑا ہو گیا جس کے نتیجے میں اس کے خاوند اور ساس نے اسے گھر سے دھکے دے کر نکالا۔یہ مکافات عمل تھا جو سب نے دیکھا۔ ثمن سب کچھ چھوڑ کر باپ کی بجائے سیدھی اپنی ماں شگفتہ کے پاس پہنچی اور اپنی دوسری شادی تک اپنی ماں کے ساتھ ہی رہی۔ جبکہ زینب کے گھر سے نکل جانے کے بعد جو بیٹی خدا نے اسے دی تھی جس کا نام سائرہ تھا۔ ثمن کے خاوند نے اپنے چھوٹے بھائی کے لئے سائرہ کا رشتہ مانگ لیا۔ ثمن کا سارا جہیز اسی گھر میں موجود تھا جو انہوں نے سائرہ کو دے دیا اور وہ اسی نے ہی استعمال کیا۔ جیسے اس کی ماں کا سامان شگفتہ نے استعمال کیا تھا۔
آج سے چند سال پہلے شگفتہ شدید بیمار ہو گئی اور اس نے ثمن کو واپس اس کے باپ حبیب الرحمن کے پاس بھیج دیا۔ زینب آج بھی اسی زمین دار کی حویلی میں ہے جہاں اس نے پناہ لی تھی۔ اس کے بچے اسے ملتے ہیں اور بیٹا اپنی ماں کو حج بھی کروا چکا ہے۔ حبیب الرحمن نے دو نکاح مزید کیے تھے مگر پانچ میں سے ایک بھی بیوی بڑھاپے میں ساتھی نہیں بنی۔ قابلِ رحم حالت میں زندگی کے شب و روز پورے کر رہا ہے۔ ٹانگوں پہ فالج کی وجہ سے چل پھر نہیں سکتا۔ شگفتہ کے بیماری کی وجہ سے دونوں پاؤں کٹے۔ پھر ایک ٹانگ آدھی کاٹنی پڑی۔ آخر کار انتہائی بے بسی کی حالت میں پچھلے سال اسی موسم میں اس کی وفات ہوئی۔ اپنی طاقت اور جوانی کے دنوں میں کیے گئے ظلم کا بدلہ دونوں نے بھگتا۔ ضروری نہیں ہر آزمائش مکافات عمل کا نتیجہ ہو کچھ تکلیفیں انسان کو آزمانے بھی آتی ہیں۔
مگر یہ ایسا عمل تھا جسے سب نے اپنے جیتے جی دیکھا۔ اللہ تعالیٰ سب کو رحم کرنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ رحیمی اس کی ایسی صفت ہے جو اسے خود کو بہت عزیز ہے۔