جیمز جوائس
انگریز ناول نگار ”جیمز جوائس“ (James Joyce) آئرلینڈ میں پیدا ہوا۔ بچپن انتہائی کسمپرسی اور مشکل میں گزرا۔ پیرس میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے گیا، مگر تعلیم مکمل نہ کرسکا اورلسانیات پڑھانے لگا۔ 1907ءمیں اپنی نظموں کا مجموعہ اور 1914ءمیں کہانیوں کا مجموعہ شائع کیا۔ اس کا شاہکار ناول Ulysses 1922ءمیں شائع ہوا۔ ان کے بارے میں آتا ہے کہ وہ جب لکھنے لگتے تو کمرہ بند کردیتے اور پھر فرش یا بستر پر اُلٹے لیٹ کر لکھنے کا آغاز کرتے۔ ان کا کہنا تھا اس طرح لیٹنے سے میرے خیالات جمع ہوتے ہیں اور لکھتے ہوئے راحت اور دلچسپی محسوس کرتا ہوں۔
***
وکٹر ہوگو
”وکٹر ہیوگو“ (Victor Hugo) فرانسیسی شاعر، ناول نگار اور ڈرامہ نویس تھا۔ وہ 26 فروری کو فرانس کے شہر بیسانکاں میں پیدا ہوا۔ وہ فرانسیسی زبان کا عظیم مصنف مانا جاتا ہے۔ شروع میں شاعری اُس کی وجہ شہرت بنی، مگر بعد میں اُس کے ناول اور ڈراموں کو بھی بہت شہرت ملی۔ 22 مئی 1885ءکو پیرس میں اُس کا انتقال ہو گیا۔ فرانسیسی رائٹر اور ناول نگار ”وکٹر ہیوگو“ کے بارے میں کہا جاتا ہے: ”وہ لکھتے وقت بالکل سیدھے کھڑے ہوجاتے تھے۔ ایک لمبی اور اونچی میز استعمال کرتے تھے۔ وہ جتنا بھی لکھتے کھڑے ہوکر ہی لکھتے۔ بعض اوقات چھ چھ گھنٹے بھی اسی حالت میں کھڑے رہتے تھے۔“
***
ای بی وائٹ
کارلوٹیز ویب کے مصنف ”ای بی وائٹ“ (E.B. White) کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا: ”میں لکھتے ہوئے کبھی موسیقی نہیں سنتا۔ یہ مجھے بالکل پسند نہیں۔ دوسری جانب میں معمول کی خلل اندازیوں کے باوجود اچھے طریقے سے اپنا کام کرتا ہوں۔ میں ایک بولتے بستے گھر میں رہتا ہوں۔ جہاں مختلف آوازیں، ٹیلی فون پر رابطے، بھاری ٹریفک کا شور سب کچھ چلتا ہے۔ اس کے باوجود میرا کمرہ میرے لیے دلچسپ جگہ ہے۔ میں اپنا کام جم کر کرتا ہوں۔ اس دوران میرے گھر والے، جو کام میں کر رہا ہوتا ہوں کی جانب ذرا بھی توجہ نہیں دیتے۔ وہ مکمل آزادی سے بولتے، ہنستے اور قہقہے لگاتے ہیں۔ اگر مجھے ا ن چیزوں سے زیادہ الجھن محسوس ہو تو میں اپنی جگہ بدل لیتا ہوں۔ اگر کوئی آدمی کام کے لئے بہتر اور موزوں حالات اور ماحول کا منتظر رہنے کا عادی ہے تو بہت ممکن ہے کہ وہ کاغد پر ایک لفظ بھی اتارے بغیر اس دنیا سے کوچ کر جائے۔ “
***
ہاروکی موراکامی
”ہروکی موراکامی “(Haruki Murakami) کہتے ہیں جب میں ناول پر کام کرنے کے لیے پرعزم ہوتا ہوں تو صبح چار بجے جاگ اٹھتا ہوں۔ مسلسل 5 سے 6 گھنٹے کام کرتا ہوں۔ دوپہر میں 10 کلومیٹر دوڑ یا لگ بھگ 15 سو میٹرتیراکی کرتا ہوں یا پھردونوں۔ پھر میں تھوڑا سا مطالعہ کرتا ہوں اور رات نو بجے لازمی طور پر سو جاتا ہوں۔ میں ہر روز اسی طریقے پر عمل کرتا ہوں۔ میرے معمولات میں اعادہ بہت اہم ہے۔ یہ میسمرزم کی ایک قسم ہے۔ میں اس طرح خود کو بہترین اور گہری دماغی سطح تک لے جانے کے لیے میسمرائزکرتا ہوں، لیکن لمبے عرصے تک اس عادت کو برقرار رکھنے کے لئے اچھی ذہنی اور جسمانی صحت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک طویل ناول لکھنا ایک طرح سے بقا کی مشق ہے۔ اس کے لیے فنکارانہ حساسیت کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت بہت اہم ہے۔
***
ہنری ملر
ہنری ملر“ (Henry Miller) نے 1932ءمیں کام کرنے کا ایک لائحہ عمل ترتیب دیا تھاجس میں اس نے اپنی روزمرہ مصروفیات کی فہرست کا ذکر کیا ہے۔ یہ فہرست بعد میں ایک کتاب ہنری ملر آن رائٹنگ میں شائع کی گئی۔ وہ لکھتے ہیں: ”ایک وقت میں ایک ہی کام کریں، یہاں تک کہ اسے مکمل کر لیں۔ پہلی کی تکمیل سے قبل نئی کتابیں شروع نہ کریں۔ نروس ہر گز نہ ہوں۔ جو کام درپیش ہے اسے پورے اطمینان، خوشی اور تسلسل سے جاری رکھیں۔ موڈ کے تابع ہونے کے بجائے پروگرام کے مطابق کام کریں۔ مقرر وقت پر کام روک دیں۔ جب آپ کچھ نیا تخلیق نہ کر پائیں، اس وقت آپ کام کر سکتے ہیں۔ معمول کے آدمی رہیے۔ لوگوں سے ملیے۔ مختلف جگہوں پر جائیے۔ اپنی پسند کا مشروب پیجئے۔ خشک مزاج ہر گز نہ بنیں۔ خوش دلی سے کا م کریں۔اگر کام میں جی نہ لگ رہا ہو تو فی الوقت روک دیجیے۔ اگلے دن پوری توجہ کے ساتھ کام میں جت جائیں۔ ان تمام کتابوں کو بھول جائیں جو آپ لکھنا چاہتے ہیں۔ صرف اس پر توجہ دیں جس پر آپ کا کام جاری ہے۔ لکھنے کے کام کو ہمیشہ ترجیح دیں۔
***
خالد حسینی
”خالد حسینی “(Khaled Housseni) نے نوح چارنی کو ایک انٹرویودیتے ہوئے ایسے امور پر بات کی ہے جن کی جانب سب لکھنے والوں کو توجہ دینی چاہیے۔ میں آﺅٹ لائننگ کا قائل نہیں ہوں۔ مجھے یہ مفیدمعلوم ہوتی ہے اور نہ ہی میں خود کو مختلف خانوں میں قید کرنا چاہتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ کہانی کو اپنا راستہ خودبنانے دینا چاہئے۔ یہی وجہ ہے میرے نزدیک پہلا مسودہ لکھنا بہت مشکل اور مشقت طلب کام ہے۔ مجھے دوبارہ لکھنا اچھا لگتا ہے۔ پہلا مسودہ تو محض خاکہ ہوتا ہے، میں اس میں اضافے کرتا ہوں۔ اس میں تہیں، پہلواور مزیدرنگ بھرتا ہوں۔ دوبارہ لکھتے ہوئے مجھے احساس ہوتا ہے کہ اب کہانی میری حقیقی توقع کے قریب تر تشکیل پارہی ہے۔ اس سے مجھے اطمینان ملتا ہے۔ مجھے بہت سے ایسے لوگ ملے جو کہتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں ایک کتاب ہے، مگر ہم نے آج تک ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ میرے خیال میں انھیں لکھنا چاہیے۔ ہر روز لکھنا چاہیے، چاہے آپ اسے پسند کرتے ہوں یانہیں۔ کم ازکم ایک قاری کے لیے لکھیے اور وہ قاری بھلے آپ خود ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ کہانی لکھیے جو آپ کہنا یا پھر سننا چاہتے ہیں۔ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ یہ جاننا بہت دفعہ ناممکن ہوتا ہے، سو اندازے لگانے میں وقت ہرگزضائع نہ کریں۔