شہرِ جاناں میں صدا کس کو لگاتے عینی
وہ عجب شہر تھا واں کس کو بلاتے عینی
ہجر کی رات کھلا راز یہ ہم پر لوگو
وہ نہیں آتا اگر اس کو بلاتے عینی
اپنی قسمت میں لکھے سنگ تھے ہر جانب ہی
پھول چنتے تو وہی خار چبھاتے عینی
وہ تو یوں چھوڑ گئے جیسے ہمی مجرم ہیں
مجھ سے وہ کرتے گلہ پاس تو آتے عینی
جشنِ مقتل میں کوئی کاش ہمیں لے جاتا
ہم بھی اے کاش وہاں خاک اڑاتے عینی
لفظ لکھتے تو کوئی دل کی حکایت لکھتے
ہم کو اے کاش ہنر میر سے آتے عینی
دوست کہتے تھے سبھی یار بلاتے تھے سبھی
ہم نے دیکھا ہے انہیں آنکھ چراتے عینی