ایک کنکر سے، تھمے پانی میں ہلچل کرکے
تم کو کیا مل گیا آنکھیں مری جل تھل کر کے
اس نے زلفوں کی گھنی چھاؤں کا بادل کرکے
دل کے صحرا کو رکھا ہے ہرا جنگل کر کے
ساتھ تم تھے تو کٹی زندگی اک پل کی طرح
پھر تمھیں کھو کے گذارا اسے پل پل کر کے
میں تو پروانہ ہوں جلنا ہے مقدر میرا
اپنی آنکھوں میں لگاؤ مجھے کاجل کر کے
خوشبو تشہیر کی محتاج نہیں ہوتی ہے
اپنے کردار کو دیکھو ذرا صندل کرکے
روبرو میرے جو آئے تو چھپا لیتے ہیں
اپنے رخسار کو ہاتھوں کا وہ آنچل کرکے
قصے مشہور تھے دانشوروں میں طالب کے
تم نے رکھا ہے اُسے عشق میں پاگل کرکے