فرقت کے یہ پل ،دل سے بتا کون اتارے
شب بھر مرا بس ساتھ نبھاتے رہے تارے
اس بات کی ہرچاہنے والےکو خبر ہے
الفت کی کتابوں میں نہیں سود و خسارے
ہوتا ہی نہیں محو،نگاہوں سے وہ منظر
دیکھا تھا تمہیں شام کو جب جھیل کنارے
وہ دیس بسایا ہے کہ سوچیں بھی نہ پہنچیں
لوٹے نہ صدا چاہے کوئی لاکھ پکارے
اب پاس نہیں ہیں جو گئے دل سے نکل کر
تھے میرے بھی ہم درد کبھی دل کے سہارے
دیکھے ہیں ان آنکھوں نے وہ جلتے ہوئے منظر
خاموش سی ہے جھیل تو چپ چاپ شکارے
تاثیر ہے الفاظ میں کیسی یہ تبسم
کیوں ذہن سے مٹتے نہیں اشعار تمہارے