زبان و بیان کی گرفت پر کچھ لوگ چھٹپٹاتے ہوئے بڑبڑاتے ہیں کہ زبان و بیان کیا ، کہانی کے موضوع کو دیکھیے کہ کتنا پُرفکر اوراہم ہے، مسئلے پر نظر جمائیے کہ کتنا سنگین ہے، معاملات ملاحظہ کیجیے کہ کتنا پر پیچ اور پیچیدہ ہے۔ اگر کسی کو صرف کوئی پر فکر اور اہم موضوع دیکھنا ہو تو فلسفے اور منطق کی کوئی کتاب نہ کھول لے۔اگر محض کسی سنگین مسئلے کو سمجھنا ہو تو عدالت کا کوئی مقدمہ نہ سامنے رکھ لے۔ اگر کسی معاملے کی پیچیدگی کو سمجھنا ہو تو کوئی علمِ سیاسیات یا معشیات کی کسی کتاب کا ورق نہ پلٹ لے۔کوئی انسان کہانی یا شاعری اس لیے پڑھتا ہے کہ اسے حظ حاصل ہو جائے۔کیف و نشاط مل جائے۔
لطف و انبساط کے رنگ و بو سے اس کے دل و دماغ کھل جائیں۔مسامِ جاں معطر ہو جائیں۔ اس لیے کہ ادب کے مواد و موضوعات اور مسائل و معاملات کو زبان و بیان دلچسپ اور پر لطف بناتے ہیں۔ان کے خط و خال میں رنگ و نور بھرتے ہیں۔ان میں حسن پیدا کرتے ہیں ۔ان کی کشش اور معنویت کو بڑھاتے ہیں ۔زبان و بیان کے منتر ان میں جادو پھونک دیتے ہیں۔ایسا جادو کہ لفظ بغیر رنگ و برش کے تصویریں بنانے لگتے ہیں حرف و صوت بنا ساز کے سُر سنانے لگتے ہیں۔لب و لہجے کے زیر و بم بنا بادہ و ساغر کے رگ و پے میں کیف و سرور بھرنے لگتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ زبان و بیان کے تار کسے ہوئے ہوں ورنہ ان سے جھنکار نہیں نکل سکتی اور جب جھنکار ہی نہیں نکلے گی تو پھر سماعت کیسے ہمہ تن گوش ہوگی۔بصارت کیسے موضوع مواد پر مرکوز ہوگی۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ جامِ سفال جامِ جم سے اچھا اور مٹّی کا دیا جھاڑ اور فانوس سے بہتر ہو جاۓ اور کسی کوچوان کے بیان سے گنجی چندنیا پر بال اُگ آئیں تو زبان کے جادو کو سیکھنا ہی ہوگا اور یہ کام سرسری گزرنے سے نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے مراقبے میں بیٹھ کر چلّہ کھینچنا ہوگا اور اس نکتے پر نظر کو مرکوز کرنا ہوگا کہ
ارتباطِ لفظ و معنی اختلاطِ جان و تن
یہ باتیں میں نے اس لیے لکھیں کہ مجھے محسوس ہوا کہ میں اس بات کو دوہراؤں کہ ادب صرف مواد و موضوع سے نہیں بنتا بلکہ اس کے لیے زبان و بیان کا جادو بھی چلانا پڑتا ہے۔موضوع میں چمک دمک تب پیدا ہوتی ہے جب ایک رنگ کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کا ہنر آتا ہو۔اور یہی وہ وصف ہے جس کا ادراک ہوتے ہی لبوں سے اس طرح کا شعر نکل آتا ہے:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور