کسی چمن کے مچلتے شباب جیسا ہے
ترا حسین سا چہرہ گلاب جیسا ہے
تمہیں تو دیکھنا مرشد ثواب جیسا ہے
تمہارا روٹھنا ہم پر عذاب جیسا ہے
صنم کا طرز و لہجہ خطاب جیسا ہے
"دل آئینہ ہے تو چہرہ کتاب جیسا ہے"
چمکتے چاند پہ پردہ ہے لازمی جاناں
کہ رخ پہ زلف کا آنا نقاب جیسا ہے
سمجھ نہ پائی مری عقل ہی ترا لہجہ
ترا سوال ہی خود اک جواب جیسا ہے
ارادے اپنے ہمیشہ بلند رکھنا تم
جواں ہو عزم تو خود انقلاب جیسا ہے
ملا وہ جب بھی سکھائی ہے زندگی اس نے
مزاج یار کا یارو خطاب جیسا ہے
نہیں ہے قدر تری کوئی جاہلوں میں مگر
سخن وری میں تو عالی جناب جیسا ہے
ہے آسماں کی بلندی پہ رہگذر اب کے
سفر ترا بھی ذکی اب عقاب جیسا ہے