موت سے کیوں بے خبر ہے زندگی
موت کی سیدھی ڈگر ہے زندگی
دل میں کتنی آرزوئیں ہیں جواں
حسرتوں کا اک نگر ہے زندگی
داستانِ زندگی چھیڑوں گا جب
سب کہیں گے اک گہر ہے زندگی
جب سے تو نے ساتھ چھوڑا ہمسفر
تب سے میری دربدر ہے زندگی
زخمِ دل تونے دئے زخمِ جگر
تو ہی میری چارہ گر ہے زندگی
آدمی دشمن ہے آدم ذات کا
ہائے کتنی پر خطر ہے زندگی
خدمتِ خلق خدا جس میں نہیں
ہاں وہی تو بے ثمر ہے زندگی
دل میں کینہ اور سر سجدے میں ہے
کیسے کہہ دوں معتبر ہے زندگی
جیتے جیتے تھک گیا جبکہ سراج
آدھے رستے کا سفر ہے زندگی