مسلسل گردشِ افلاک کا عالم ہے پہلو میں
کسی افلاس کی خوشبو بڑا برہم ہے پہلو میں
وہ میرا شوخِ دلداری ہوا گُم بُت پرستوں میں
ابھی تو نازلِ وارفتگی پیہم ہے پہلو میں
گدازِ دل ترے قدموں میں آکر بھی رہا خستہ
میں کیسے جان لوں آخر یہ کیا عالم ہے پہلو میں
سجائے ہیں رقیبوں نے حریمِ ناز گو بے شک!
مگر اب تک تمھارے ہجر کا ماتم ہے پہلو میں
ادا حق کب بھلا ھوگا فسانہ سوز کا لکھ کر
تصور زندگانی کا ابھی مبہم ہے پہلو میں
تری یادوں کی سنگت میں بڑا آرام ملتا ھے
کہ گویا پھول پہ چمکی کوئی شبنم ہے پہلو میں
ہوا اِک حادثہ ہمدم ہمارے دِل کی بستی میں
دِیا روشن تھا جو پہلے وہ اب مدھم ہے پہلو میں