نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن
بجھی ہیں درد کی شمعیں کہ سو گیا ہے بدن
سُلگ رہی ہیں نہ جانے کس آنچ سے آنکھیں
نہ آنسوؤں کی طلب ہے نہ رتجگوں کی جلن
دلِ فریب زدہ دعوتِ نظر پہ نہ جا
یہ آج کے قد و گیسو ہیں کل کہ دار و رسن
غریبِ شہر کسی سایۂ شجر میں نہ بیٹھ
کہ اپنی چھاؤں میں خود جل رہے ہیں سرو و سمن
بہارِ قرب سے پہلے اُجاڑ دیتی ہیں
جدائیوں کی ہوائیں محبتوں کے چمن
وہ ایک رات گزر بھی گئی مگر اب تک
وصالِ یار کی لذت سے ٹوٹتا ہے بدن
پھر آج شب ترے قدموں کی چاپ کے ہمراہ
سنائی دی ہے دلِ نامراد کی دھڑکن
یہ ظلم دیکھ کہ تُو جانِ شاعری ہے مگر
مری غزل میں ترا نام بھی ہے جُرمِ سخن
امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلئہ مذہب کبھی بنامِ وطن
ہوائے دہر سے دل کا چراغ کیا بجھتا
مگر فراز سلامت ہے یار کا دامن