بات تیری ہو کہ یا پھول کی رعنائی کی
ہم نے جذبات سے لفظوں سے شناسائی کی
نفرتوں کی تو کوئی بات بھی اچھی نہ لگی
بات کرتا ہوں محبت سے مسیحائی کی
اشک پلکوں پہ چھلک آئے ستارے بن کر
بات نکلی جو کبھی قوت گویائی کی
پھول جس طرح سے پیکر میں بسا لیتا ہے
’’اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی‘‘
کوئی چہرے سے کہاں قلب کی حالت سمجھا
بات کرتا ہوں کہ یہ بات ہے بینائی کی
ظاہری آنکھ تو ظاہر پہ نظر رکھتی ہے
منفرد بات بصیرت کی ہے دانائی کی
بھول بیٹھا ہے ، مگر یاد مجھے سب کچھ ہے
میرے احساس نے اکثر تری یکجائی کی
ایک ہی دوست کہ میں جس کو بھلاتا ہی نہیں
وہی ہمراز مری خلوت تنہائی کی
بات کر بات سے اس دل کو سکوں ملتا ہے
بات تو چاہے نہ کر حوصلہ افزائی کی
رات محفل میں مرے ذکر کے کانٹوں کی طرح
تونے زخموں سے مرے انجمن آرائی کی
مرا لہجہ مری باتیں مرے الفاظ گواہ
ڈھونڈتا چیز ہے کیا تو مری سچائی کی
قامت حسن ہے جتنی بھی ترے پیکر میں
اتنی محسنؔ کی تڑپ فکر میں گہرائی کی