کیا کہیں انسان کیسا ہو گیا
دھڑکنوں پر اسکے پہرا ہو گیا
درد کی یورش فضا میں بڑھ گئی
خامشی کا رنگ گہرا ہو گیا
وحشتیں انسانیت پر چھا گئیں
کرب سے آلود چہرہ ہو گیا
ہیں عجب تاریکیاں چھنٹتی نہیں
جانے کیسا یہ اندھیرا ہو گیا
چھوڑدو غفلت کی نیندیں دوستو
جاگ جاؤ اب سویرا ہو گیا
زندگی میں قربتیں کھو سی گیں
ہر بشر اب کتنا تنہا ہو گیا