نگاہیں پھیر لیں تم نے، تو اچھا یار! چلتے ہیں
ہم اپنی دل کی کشتی کو لگانے پار چلتے ہیں
اگرچہ سوگ کا عالم بہت تکلیف دیتا ہے
کہیں آوارگی کرنے ہم اب کی بار چلتے ہیں
دکھاوے کی یہ رونق بھی ہمیں اب آزمانی ہے
سو، تنہائی سے گھبرا کر سرِ بازار چلتے ہیں
تمھیں لگتا ہے وحشت اور اداسی ہم کو راس آئی؟
یہ سانسیں رک سی جاتی ہیں جو ہم سرکار! چلتے ہیں
پرانے زخم کا اب تک تدارک کر نہ پائے ہم
مسیحا خیر ہو تیری! بس اب بیمار چلتے ہیں
نہ دل جوئی نہ غمخواری نہ ہی کوئی دلاسا دو
ہم اب تو کچھ بھی سننے سے ہوئے لاچار، چلتے ہیں!
جو دہرائی نہیں جاتیں، وہ باتیں کیوں سناتے ہو؟
ہمارا دل تو اب کاشف ہوا بیزار، چلتے ہیں