دل میں اک بن کے وبا ٹھہری ہے
زندگی ہائے! سزا ٹھہری ہے
ہوتے ہیں یوں تو محفل کا
پر جگہ اپنی خلا ٹھہری ہے
درد جب حد سے گزر جائے تو
آنسوؤں میں بھی شفا ٹھہری ہے
رقص بسمل تھا چمن میں سارے
میں کہ بلبل ہوں جفا ٹھہری ہے
بادلو اب تو برس بھی جاؤ
دل پہ گھنگھور گھٹا ٹھہری ہے
پار کرنا ہے ندی کو اس نے
سوہنی لے کے گھڑا ٹھہری ہے
مشکلیں جب بھی بہر جانب ہوں
صبر کرنا بھی ادا ٹھہری ہے
یاد کرتے تھے ہم سدا جس کو
وہ گھڑی کتنی خفا ٹھہری ہے