تری حیات کا ہر لمحہ خواب جیسا ہے
ترا وجود جہاں میں حباب جیسا ہے
یہ بات اور بڑھاپے کا ہے سماں لیکن
ہمارا حوصلہ اب بھی عقاب جیسا ہے
میں جب سے چھوڑ کے آیا ہوں ان کے کوچے کو
مری حیات میں اب اضطراب جیسا ہے
حضور آپ کی تشریف ہی کی برکت سے
مرا مکان شگفتہ گلاب جیسا ہے
نظر سے ان کی پیے گزری مدتیں لیکن
خمار آج بھی مجھ پر شراب جیسا ہے
میں اور کیا کروں تعریف اپنے ہمدم کی
دل آئینہ ہے تو چہرہ کتاب جیسا ہے