دوڑتی بھاگتی دنیا کا یہ چکر چھوڑو
جس کی تخلیق ہے دنیا یہ اسی پر چھوڑو
اپنی تقدیر بدلنی ہے تو تدبیر کرو
کب لکیروں سے بدلتے ہیں مقدر چھوڑو
ایک لمحہ نہ بڑھا پاؤگے کوشش کر کے
زندگی موت کا ہے وقت مقرر چھوڑو
روز ہر صبح موذن یہ صدا دیتا ہے
خوابِ غفلت سے ہو بیدار یہ بستر چھوڑو
وقت انصاف کی چکی کی طرح ہوتا ہے
فیصلہ وقت کرے گا کوئی بہتر چھوڑو
روح مجروح ہوئی جسمِ اخوت چھلنی
اب یہ تلوار مرے بھائی یہ خنجر چھوڑو
اس طرح اشک بہاوُ نہ جدائی میں صنم
خشک ہو جائیں گے آنکھوں کے سمندر ، چھوڑو
چھوڑنا ہے تو بڑے شوق سے چھوڑو لیکن
مجھ کو اک بار گلے سعؔد لگا کر چھوڑو