زبان و لفظ ،نہ مفہوم اختیار میں تھا
مرا تو ذہن ہی برسوں سے انتشار میں تھا
مجھے ملا وہ، مگر اور کسی کے پیار میں تھا
ہزاروں سال سے میں جس کے انتظار میں تھا
وہ ساتھ اپنے گلستاں میں لے تو آیا مجھے
یہ دل مگر کسی اُجڑے ہوئے دیار میں تھا
بچھڑنا ملنا تو تقدیر میں رہا شامل
وصَال و ہجر کہاں میرے اختیار میں تھا
حیات دے گیا جاتے ہوئے مراسم کو
وہ اجنبی سا کوئی شخص جو شمار میں تھا
مری طرح سے بظاھر تو خوش نظر آتا
درونِ ذات مگر وہ بھی خلفشار میں تھا
اسے بھی فکر تھی میری مگر خموش تھا وہ
تو میں بقاۓ محبت کے کارزار میں تھا
یہ بات سچ ہے کہ الماس کو گلے ہی رہے
مگر یہ دل بھی اسی ذات کے حصار میں تھا