میری آنکھوں کا ستارہ تھا وہ مَہرُو بن کر
اب وہ خوش طبع جو ملتا ہے تو بَدخُو بن کر
اپنی پہچان چھپاتا ہے ہمیشہ ظالم
آدمی ڈستا ہے انسان کو بِچّھو بن کر
زندگی ریت کی مانند اڑا کرتی ہے
وقت ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے بالو بن کر
مفلسی بھی تو کئ شکل میں آتی ہے نظر
ہاتھ میں ہل توکبھی پاؤں میں گُھنگھرُو بنکر
روپ ناگن کا بنا کر زکبھی زلفیں آئیں
کبھی ناگن ہی چلی آئی ہے گِیسُو بن کر
خار تو خار ہے وہ پھول نہیں ہو سکتا
پھر نظر کاہے کو آجاتا ہے گُل رُو بن کر
آپ ہی آپ تھے اک روز ہوئے آپ سے تم
ان کی نظروں میں فقط رہ گئے اب تُو بن کر
اپنے الفاظ بھی پھر اپنے کہاں رہ پائے
آنکھ جب آنکھ میں در آئی تھی جَادُو بن کر
اب سنبھلتا نہیں مجھ سے یہ دُرِ بِیش بَہا
درد آنکھوں سے بہے جاتے ہیں آنسُو بن کر
مل گیا دل کی زباں کو یہ وسیلہ بھی"مشیر"
آرزو ہونٹوں پہ آنے لگی اُردُو بن کر