ہر وقت یونہی شعر سنائے نہیں جاتے
بے وجہ خزانے تو لٹائے نہیں جاتے
پانی کی ضرورت ہے محبت کے شجر
پتھر پہ کبھی پیڑ اگائے نہیں جاتے
احساس اگر ہو تو وفا کے پھول کھلے
دستور محبت کے سکھائے نہیں جاتے
اپنے تو کسی درد کا احساس نہیں ہے
دل میں ہیں سبھی درد پرائے نہیں جاتے
اشعار ہیں چہرے پہ محبت کی لکیریں
مفہوم مقدر کے چھپائے نہیں جاتے
معلوم ہے خوابوں کی حقیقت ہے بکھرنا
پھر بھی تو کئی خواب بھلائے نہیں جاتے
اچھا ہے بدر اپنی غزل ہو گئی ورنہ
سو بار وہی شعر سنائے نہیں جاتے