وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا
اب اُس کا حال بتائیں کیا؟
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں
پھر سچا شعر سنائیں کیا؟
اِک ہجر جو ہم کو لاحق ہے
تا دیر اُسے دھرائیں کیا
وہ زھر جو دل میں اتار لیا
پھر اُس کے ناز اٹھائیں کیا؟
اِک آگ غمِ تنہائی کی
جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ھو
پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا؟
پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں
یہ شمعیں بجھنے والی ہیں
ہم خود بھی کسی سے سوالی ہیں
اس بات پہ ہم شرمائیں کیا؟
ہم نغمہ سَرا کچھ غزلوں کے
ہم صُورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا؟
کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا؟