چانڈیو نے جال کو جھٹکے دیتے ہوئے سمیٹنا شروع کیا تو پہلی بار اپنے بازؤؤں کی طاقت پر اس کا ایمان متزلزل ہوا۔ جال کے ساتھ ہی اس کے یقین کو بھی ایک شدید جھٹکا سالگا۔
چانڈیو نے ماتھے سے سرکتی پسینے کی بوندوں کے عقب سے آسمان سے سرک کر سمندر کے پیٹ میں اُترتے سورج کو دیکھا۔ وہ چانڈیو کے پسینے کے ایک قطرے سے بھی چھوٹا تھا اس وقت!
چانڈیو تمام عمر اس گتھی کو نہ سلجھا پایا تھا کہ دن بھر اپنی تمازت سے دنیا بھر کو جلانے والا سورج شام ہوتے ہی کس طرح چند ہی لمحوں میں سمندر کے بطن میں یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے آسماں بھر کی مسافت کا مقصد زمین کے ایک شوریدہ حصے کے لیے سپردگی کے سوا کچھ نہیں۔
یہ سوچتے سوچتے چانڈیو کے بازؤؤں کی طاقت چند لمحوں کے لیے دوبارہ عود کر آئی، لیکن دوسرے ہی لمحے یہ سوچ کر کہ ماروی تو اب دنیا میں ہے ہی نہیں، چانڈیو کے عضلات پھر ڈھیلے پڑ گئے۔ اس نے جال کو ڈھیلا کر دیا اور دُور پانی میں کھڑے اپنے ساتھیوں کو دیکھا جو بھاری جال کو دھیرے دھیرے دھکیل کر کنارے کی جانب لا رہے تھے۔۔دمکتے سنولائے چہروں پر تن کا یہ بوجھ۔۔۔من کو ہلکا پھلکا کر رہا تھا کہ آج سب کا حصہ بھاری ہے۔۔۔تبھی چانڈیو کو وارث کا خیال آیا۔ اس نے جلدی سے مُڑ کر دیکھا۔۔۔اُس کا پوتا وارث۔۔ریت سے اَٹے گھنگھریالے بالوں کو ہوا کی شرارتوں سے بچاتا۔۔۔ریت پر قدموں کے نشان بناتا۔۔اِدھرُ ادھر سیپیاں چنتا پھر رہا تھا۔۔۔چانڈیو نے آواز دی؛ ’’وارث۔۔۔آجاؤ اب مچھلیاں ٹوکری میں ڈالنی ہیں‘‘ چانڈیو جانتا تھا کہ مچھلیاں ٹوکری میں ڈالنے کا مرحلہ وارث کے لیے بے حد دلچسپی کا باعث تھا۔ وہ عجیب طرح کے ترحم۔۔۔تجسس ، خوشی اور غم کے رنگ لیے اپنی سیاہ چمکتی آنکھوں سے اس سارے منظر کو دیکھتے دیکھتے کہیں کھو جایا کرتا تھا۔
وارث نے جلدی سے کچھ سیپیاں ایک جانب سے پھٹی ہوئی اور مایوسی سے لٹکی ہوئی جیب میں ڈالیں۔ اور دادا کی جانب بھاگ کھڑا ہوا کہ سمندر سے نکل کر ایک ٹوکری میں محدود کر دی جانے والی چھوٹی بڑی مچھلیوں کا جاندار احتجاج، بے جان سیپیوں کی نسبت بہرحال زیادہ بھر پور نظارہ تھا۔
چانڈیو کے ساتھی دھیرے دھیرے جال کا دائرہ تنگ کرتے جا رہے تھے۔ ساحل کے قریب ریت پر دم توڑتی لہروں میں جال کے تاروں میں پھنسی مچھلیوں کے تڑپنے اور اُچھلنے کے ساتھ ساتھ وارث کا دل بھی اسی رفتار سے تڑپ اور اُچھل رہا تھا۔
چمکتی پھسلتی، ہانپتی۔۔۔چھوٹی بڑی ڈھیروں مچھلیاں سمندر میں واپسی کے لیے اپنا آخری زور لگا رہی تھی۔۔کئی مچھلیاں جن کی چھلانگ زور دار تھی۔۔یا قدرے چھوٹی تھیں اُچھل کر جال کے سوراخوں سے پھسل کر غڑاب سے دوبارہ پانی میں کود پڑی تھیں۔۔۔چند شکست خوردہ لہریں انھیں ساتھ لے جار ہی تھیں۔ انھیں واپس تیزی سے سمندر میں غائب ہوتے دیکھ کر وارث کے دل سے ہمیشہ خاموشی سے یہ دعا نکلتی۔’’یااللہ یہ ساری مچھلیاں بھاگ جائیں تو کتنا اچھا ہو۔۔‘‘ کیوں کہُ اس کی دُعا دادا کے اُصولوں ۔۔۔دادا کے مفادات کے خلاف تھی۔ اس میں سے بغاوت کی بُو آتی تھی۔ ویسے بھی دادا اور پوتا کے مفاد الگ الگ تھوڑا ہی ہوتے ہیں۔۔۔اصل مسئلہ وارث کا تھا کہ اسے۔۔۔survival of the fittest کے قانون کی شُد بُد نہ ہونے کے علاوہ محبت، رحم۔۔۔ترس ایسے متروک الفاظ بھی ابھی تک اس کی ننھی سی دنیا میں موجود تھے۔
جال دھیرے دھیرے ساحل پر سمٹتا گیا۔۔۔مچھلیوں کا ڈھیر۔۔۔اور اونچا۔۔۔اور قریب ہوتا گیا۔ وارث نجانے کیوں چند قدم پیچھے ہو گیا۔۔۔ریت پر اُچھلتی پھسلتی دم توڑتی مچھلیوں کو وارث بغیر پلک جھپکائے دیکھتا رہا۔۔۔پھر اس نے سہم کر دادا کا کُرتا یوں پکڑ کر ہلایا۔۔جیسے مچھلیوں کی خوف سے پھیلی پتلیوں میں جم جانے والی موت کا ذمہ دار وہ خود ہو۔۔وارث نے لرزتے لہجے میں پوچھا۔
’’بابا یہ اتنی ساری مچھلیاں اپنے گھر والوں سے دُور مرتے وقت روتی ہیں نا۔۔۔۔‘‘
چانڈیو نے اپنی کمر کے ساتھ لگے ریت بھرے گھنگھریالے بالوں کے ذرا نیچے سہمی سی چمکتی آنکھوں کو دیکھا۔۔۔جن میں مردہ مچھلیوں کے عکس جھلملا رہے تھے۔۔چانڈیو نے اس کے بالوں کو پیار بھرا جھٹکا دے کر کہا؛
’’حلال چیز کا دُکھ فضول ہے بیٹا۔ ہم شکار نہیں کریں گے تو بڑی مچھلیاں کھا جائیں گی انھیں۔۔۔‘‘
وارث نے ایک گہری سانس لے کر اپنی لٹکی ہوئی جیب میں پڑی چند سیپیوں کو تھپک کر محسوس کیا اور سنہری ڈھیر کو دیکھا۔۔۔جس پر تاریک سائے رینگنے لگے تھے۔ کہیں کہیں کوئی ہلکی سے تڑپ کی لہر اُٹھتی پھر ٹھنڈی ہو جاتی۔۔
’’بزدل۔۔۔بھلا سمندر کی مخلوق کو ریت پر لا کر بے بس کرنا کون سا کارنامہ ہے۔۔۔؟‘‘
لیکن وارث صرف سوچ سکتا تھا، کہنا اس کے بس میں نہیں تھا۔۔جال سمٹ چکا تھا۔۔سارے شکاری اپنی اپنی ٹوکریاں بھر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ پاؤں تیزی سے مصروفِ کار تھے۔ وارث کا جیڈوب سا گیا وہ پھر سیپیاں گھونگے چننے لگا۔
وہ ہر روز عہد کرتا کہ دادا کے ساتھ مچھلیوں کی بے بسی کا یہ تماشا دیکھنے نہیں آئے گا۔ لیکن خود بخود اس کے قدم گیلی ریت پر دادا کےقدموں کا پیچھا کرنے لگتے۔
سورج اپنی حدت سمیت سمندر میں غرق ہو چکا تھا۔۔چانڈیو نے وارث کو آواز دی۔
’’وارث بیٹا۔۔۔اُٹھو۔۔چلیں تمہاری ماں پریشان ہو گی‘‘
وارث نے اُٹھ کر ریت کے چہرے پر ایک ٹھوکر ماری شایدتڑپتی دم توڑتی مچھلیوں کا انتقام لینے کو۔۔۔پھر کسی قدر جھنجھلا کر آنکھوں میں آئی مایوسی کو آستین سے پونچھتے ہوئے۔۔دادا کو دیکھ کر ’’مجھے موتی والی سیپی کیوں نہیں ملتی۔۔۔ہاں؟‘‘
چانڈیو نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔۔۔بالکل ویسا ہی قہقہہ جیسا اس کے دادا نے اس کے باپ کے سامنے لگایا تھا اور اس کے باپ نے خود چانڈیو کے سامنے ۔۔۔ایسے ہی ایک سوال پر۔۔۔اور سالوں بعد پھر ایسا ہی ایک قہقہہ وارث لگائے گا اور پھر وارث کا بیٹا۔۔۔پھر اس کا پوتا۔۔کیوں کہ وہ بھی جانتے تھے۔۔چانڈیو بھی جانتا ہے اور وارث بھی جان جائے گا کہ موتیوں والی سیپیاں، سیپیاں چننے والوں کے مقدر میں شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں۔لیکن پھر بھی وارث کی تسلی کے لیے اس نے ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے کہا۔
’’مل جائے گی۔۔۔مل جائے گی ڈھونڈتا رہ۔۔۔‘‘
مگر وارث کی تشفی ایک ہی سوال و جواب میں کہاں ہوتی تھی، وہ تو سوال پہ سوال کیے جاتا تھا۔۔شاید مچھلیوں کے اُچھلنے کودنے سے ان کے ساکت ہو جانے تک۔۔۔منظر کو بھلانے کے لیے۔۔۔وہ پھر بولا۔
’’بابا۔۔۔تمہیں کبھی کوئی موتی ملا۔۔۔۔؟‘‘
چانڈیو نے مچھلیوں سے بھری ٹوکری ایک کاندھے سے دوسرے پر منتقل کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔۔۔‘‘
وارث کی سانس جیسے رک گئی، اس کے قدموں کے ساتھ ہی ۔۔۔سمندر، آسمان، سورج، پرندے۔۔۔سب ساکت ہو گئے۔۔۔ٹوکری میں پڑی مچھلیوں کی طرح۔۔چند لمحوں بعد اس کے لب پھڑپھڑائے۔۔۔ڈھیر میں ایک نیم جاں چھوٹی سی مچھلی تڑپی۔۔۔
’’کہاں۔۔۔ہے۔۔وہ موتی؟‘‘
الفاظ تحیر کی چٹان سے اٹک اٹک کر سنبھل سنبھل کر اُترے۔۔۔چانڈیو کے زور دار قہقہے نے تحیر کی چٹان کو پاش پاش کر دیا۔الفاظ بکھر گئے۔۔۔
’’تو ہے نا میرا موتی۔۔۔‘‘
وارث مایوسی کی ریت پر مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔۔۔اُس نے مڑ کر دیکھا۔۔۔سورج راکھ ہو چکا تھا۔ سمندر دھواں دھواں سا اور پرندوں کے پَر رات کے جال میں اُلجھتے جا رہے تھے۔۔۔صرف شوریدہ لہروں کا شور باقی تھا۔۔۔
چانڈیو کے قدم جھونپڑی کے قریب آن کر تیز ہو گئے۔ اندر سے لالٹین کی روشنی ڈر ڈر کر اندھیرے میں جھانک رہی تھی۔ جھونپڑی میں اساوری۔۔روشنی اور اندھیرے کے وجود سے بے خبر ٹٹول کر اپنا بستر چٹائی پر بچھاتے ہوئے ماں سے وارث کے بارے میں کہہ رہی تھی کہ اسے آج لگتا ہے دیر ہو گئی ہے۔ اساوری کو معلوم تھا کہ وارث مچھلیاں دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے روز موتی بھی ڈھونڈنے جاتا ہے۔ اسے وہ کہانی یاد آ گئی، جو اساوری نے ایک دن وارث کو سنائی تھی۔ ایک اندھی جل پری کی کہانی۔ جو اپنی سنہری زلفوں، نیلگوں آنکھوں جیسے سمندر میں تیرتے تیرتے ایک ایسا موتی تلاش کر لائی تھا جس سے جل پری کی آنکھوں کے چراغ روشن ہو گئے تھے۔۔
لیکن وارث کو یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اساوری نہ تو سنہری زلفوں والی جل پری تھی اور نہ ہی کوئی آدم زاد اس کی بے ر نگ آنکھوں میں ڈوبنے کو تیار تھا۔۔۔اس نے تو جل پری کی کہانی اپنے چھ سالہ بھائی وارث کو سنائی تھی۔جو پاگل تھا بالکل۔۔۔روز کہانی والا موتی ڈھونڈنے جاتا اور آنکھوں میں ریت بھر لاتا۔ ریت آنکھوں میں چبھتی تو کئی موتی لڑھک آتے۔۔۔مگر یہ موتی تو بہہ جانے والے تھے۔ قمیض کی گندی آستین، پھٹے دامن یا مٹی میں جذب ہو جانے والے۔۔۔اِن سے بھلا آنکھیں روشن ہوتی ہیں کسی کی!۔۔۔
روز رات کو اساوری وارث کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر، دبا کر گرم کرتی، اس کے ٹھٹھرتے لہجے کو اُمید کی لَو دیتی۔۔روز صبح سورج۔۔۔تمازت لیے آسمان پر چڑھائی کرتا اور شام کو سمندر کے بطن میں اُتر جاتا۔۔۔چانڈیو روزجال لگاتا۔۔۔مچھلیاں تڑپتی اور ٹھنڈی ہو جاتیں۔۔۔چانڈیو تقدیر کے جال سے نہ نکل سکا نہ ٹھنڈا ہو سکا۔۔۔اسے اس جال کے ایک سرے سے دوسرے سرے پھر تیسرے پھر چوتھے سرے تک چلتا رہتا تھا۔۔ پھسلتا رہتا تھا۔۔۔یہاں تک کہ ایک دن وہ خودجال میں اَٹک جائے گا۔۔۔یا انتظار کرنا تھا۔ وارث کی جوانی تک۔۔۔۔جب وارث کے مزاج کو جان کر ۔۔۔اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے سینے پر پاؤں گاڑ کر اپنے باپ کا حساب مانگے گا۔۔۔وارث کا باپ امن چانڈیو بھی تو سمندر کا مزاج جانتا تھا۔۔۔عمر گزاری اس نے سمندر سے لڑتے لڑتے۔۔۔مگر ایک دن سمندر کا غصہ اسے کھا گیا۔۔اسے بھی مچھلیوں سے زیادہ موتیوں کی تلاش رہتی تھی۔۔بالکل اپنے بیٹے کی طرح۔۔۔
وارث بھی دن رات دادا سے یہی ضد کرتا تھا کہ وہ بھی دُور گہرے سمندر میں جائے گا۔۔۔
دادا کے ساتھ۔۔جہاں تہہ میں بے شمار چمکدار موتی ہیں۔۔۔لیکن دادا کہتا۔۔۔‘‘ابھی تم بہت چھوٹے ہو اور سمندر بہت بڑا۔۔۔‘‘
وارث اس سے لڑ پڑتا تھا ’’دادا تم بھی سمندر سے بہت چھوٹے ہو۔۔۔پھر تم کیوں جاتے ہو گہرے پانیوں میں ۔۔۔‘‘ مگر وارث کے ان پاگل سوالوں کا جواب ۔۔۔کچھ نہ تھا۔۔‘‘
پھر ایک رات جب سمندر بہت غصے میں تھا۔۔۔اس کے منہ سے جھاگ اُبل رہا تھا۔ وارث کا دادا گہرے پانیوں میں چلا گیا۔۔۔کیوں کہ حکیموں نے کہہ دیا تھا کہ اساوری کے پیٹ کے درد کا علاج ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔ بڑے ہسپتال میں جہاں ہزاروں روپے خرچ ہوتے ہیں۔۔
چٹائی پر پڑی تڑپتی سسکتی بے نور آنکھوں سے نیر بہاتی اساوری کے آنسو۔۔۔ماں کے خون میں اس کی رگوں میں اُبل رہے تھے۔ وارث بے حس و حرکت تھا۔ اساوری اسے جال میں پھنسی ریت پر پھڑکتی تڑپتی۔۔۔مچھلی نظر آ رہی تھی۔ یوں جیسے ابھی چند لمحے بعد پھر وہ ساکت ہو جائے گی۔ کسی ٹوکری میں ڈال دی جائے گی۔۔۔اور ۔۔۔اور۔۔۔ وارث ایک دَم اُٹھا اور جھونپڑی سے باہر بھاگ گیا۔۔۔ہولناک رات میں ایک بھربھری سی چٹان پر سسکتی ہواؤں کے بین۔۔۔اور بلکتی لہروں کی جھنجھلاہٹ نے خوف کو اس مقام پر لا کر چھوڑ دیا جہاں سے بے حسی کی حد شروع ہو جاتی ہے۔
رات کے کسی پہر۔۔۔خوف نے وارث کے بے حس بدن کو آدبوچا۔۔۔جھونپڑی سے ماں کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔وہ بین کر رہی تھی۔۔اساوری کی چٹائی پر لیٹ کر رونے لگتی تھی۔۔۔
بستی والے مچھلیاں لے کر آئے۔۔لٹکتی بے جان مردہ مچھلیاں دیکھ کر وارث کا جی متلانے لگا وہ دُور کہیں۔۔۔چٹانوں کی جانب بھاگ کھڑا ہوتا۔۔۔
ایک رات جب وارث نیم غنودگی میں تھا۔۔۔دادا آ گیا،اور وہ دادا کیسسکیاں سن کر بھی چُپکا پڑا رہا کہ آنکھ کھلتے ہیں کہیں دادا اور اماں بھی کسی تڑپتی مچھلی میں نہ تبدیل ہو جائیں۔۔۔
دادا کی آواز پر شور تھی۔ وارث خاموش ہو گیا۔ وہ دادا کو یہ نہیں بتانا چاہتا تھا کہ جل پری والی کہانی میں اساوری نے یہ بھی بتایا تھا کہ شادی سے پہلے مر جانے والی لڑکیاں جل پریاں بن کر سمندر کی تہہ میں رہنے لگتی ہیں۔۔۔وارث کو اساوری کی ہر بات پر یقین تھا کیوں کہ اساوری کو وہ سب کچھ دِکھتا اور سنتا تھا جو دادا اور ماں نہ دیکھ سکتے تھے نہ سن سکتے تھے۔۔
وارث اب بھی دادا کے ساتھ اس کے قدموں کے نشان پر گیلی ریت میں قدم رکھتا چلتا تھا۔۔لیکن اب اس کی آنکھیں تڑپتی۔۔۔ساکت ہوتی مچھلیوں کے نظارے پر خاموش رہتی تھیں۔۔۔چُپ۔۔۔گہری چُپ لیے۔۔۔
دادا کے بچھائے جال کو دیکھتے دیکھتے وہ سمندر کی تہہ میں تیرنے لگتا۔۔تبھی ایک رات ماں نے چانڈیو سے کہا ’’بابا وارث بہت بدل گیا ہے۔۔۔‘‘ دادا نے سوئے وارث کے چہرے پر نظر ڈال کر کہا۔
’’اساوری کی موت کا یقین نہیں آیا اسے ابھی تک۔۔۔‘‘
ماں نے ہوا سے مشابہہ سسکی بھری
’’مجھے خوف آنے لگا ہے
بابا۔۔خاموش گہرا سمندر اُس کی آنکھوں میں اُتر آیاہے۔‘‘
دادا نے اس سوال کے خوف ناک جواب سے بچنے کے لیے چٹائی پر لیٹ کر گدڑی سر سے پاؤں تک تان لی۔ چند لمحے گدڑی لرزتی رہی۔۔۔پھر بوڑھے کی آواز لرزی۔۔۔
’’سمندر سے لڑنے والوں کے دل بھی سمندر ہو جاتے ہیں۔۔۔گہرے اندھیرے اور شوریلے۔۔۔‘‘
ماں نے خوف زدہ ہو کر وارث کو دیکھا، پھر گھبرا کر نظریں پرے کر لیں۔ اسے یوں لگا وارث کی چٹائی پر سمندر بہہ رہا ہو۔۔اندھیرا۔۔شوریلا۔
صبح پوری بستی میں چانڈیو اور اس کی بہو۔۔۔وارث کو ڈھونڈ رہے تھے۔
کسی نے اسے نہیں دیکھا تھا، زمین کے تینوں کنارے اس کے وجود سے عاری تھے۔ ہاں چوتھا کنارا سمندر کچھ جانتا تھا۔۔۔مگر آج کتنا پُر سکون، کتنا خاموش تھا۔۔اپنے خزانوں میں ایک اور موتی کو چھپا کر۔۔۔