دنیا سے ذرا ہو کے جدا ہم سے ملے گا
لگتا ہے کہ اس بار خدا ہم سے ملے گا
یہ دل ہی ترے ہاتھ کی دستک پہ کھلے گا
یہ پیار زمانے میں سدا ہم سے ملے گا
اس بار چرائے گا سکوں اور طرح سے
اس بار نئی لے کے ادا ہم سے ملے گا
کب جا کے تری خیر خبر ہم کو ملے گی
کب جاکے ترے در کا گدا ہم سے ملے گا
سوچا ہی نہیں تھا کہ محبت یوں ملے گی
ہوکر وہ یہاں ہم پہ فدا ہم سے ملے گا
اس بات کا درویش نے کچھ ذکر کیا تھا
اک شخص وہاں خوف زدہ ہم سے ملے گا
ہم دین کے رستے سے جو سبحانی پھریں گے
دنیا کا ہر اک کام بُرا ہم سے ملے گا