مزاج اب عاشقانہ ہوگیا ہے
یہ دل تیرا دوانہ ہوگیا ہے
خبر کوئی نہیں لاتا ہے قاصد
ملے اس سے زمانہ ہوگیا ہے
ہٹا دو فوج ابھی تم سرحدوں سے
عدو سے دوستانہ ہوگیا ہے
ہمیشہ رنج ہی سہتا ہوں یاروں
یہ دل دکھ کا ٹھکانہ ہوگیا ہے
خلش تڑپا رہی ہے دل کو میرے
کہ کم اب مسکرانا ہوگیا ہے
نہیں آسان ہے اب دینا دھوکا
زمانہ اب سیانا ہوگیا ہے
پتا ہے بیگ اب اس کی گلی سے
مرا بھی آنا جانا ہوگیا ہے