کہیں خوشی،کہیں پہ یہ ملال چھوڑ کر گئی
حیات ہر طرح کے خدوخال چھوڑ کر گئی
ابھی تلک جواب اس کا مل نہیں سکا مجھے
تری نگاہ دل پہ جو سوال چھوڑ کر گئی
مرے وطن میں امن کے شجر کو کیا ہؤا کہ اب
سلامتی کی فاختہ بھی ڈال چھوڑ کر گئی
جلا دیا جو آدمی نے آدمی کو آگ میں
ہر ایک دل کو یہ خبر نڈھال چھوڑ کر گئی
وہ بد نصیب سوچ تھی کہ جس نے اپنے ہاتھ سے
فراق اٹھا لیا مگر وصال چھوڑ کر گئی
میں کس طرح سے مان لوں وہ زیست کامران ہے
جو ہر قدم پہ ظلم کے وبال چھوڑ کر گئی
گزارتا ہے اپنا اپنا وقت ہر کوئی مگر
ہے زندگی وہی جو اک مثال چھوڑ کر گئی